کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 205
اور خصوصیت سے اس جیسی مختصر کتاب میں ، لیکن میں کچھ ایسے قضیوں کی طرف اشارہ کروں گا جن میں کچھ نتیجہ خیز قضیئے بھی ہیں اور جن کے بارے میں ، میں کہہ سکتا ہوں ، بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ اُمت کی روش اور اس کے انجام کا دارو مدار اسی اختلاف کے نتائج پر ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ان کا اختلاف یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کے قائل کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے تلوار سونت لی۔جب کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے تو اس سلسلے میں چند آیات تلاوت فرمائیں اور کہا: ﴿إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ إِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (الزمر: ۲۰) ’’یعنی بے شک آپ کو موت آنی ہے اور انہیں بھی موت آنی ہے۔‘‘ ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ﴾ (آل عمران: ۱۴۴) ’’اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں ۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ، تو کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے؟‘‘ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا یقین ہو ا اور فرمایا کہ گویا میں نے اس سے پہلے اسے پڑھا ہی نہ تھا۔ ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کی جگہ کے بارے میں ان کا اختلاف۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے بارے میں ان کا زبردست اور معنی خیز اختلاف، اس سلسلے میں ثقیفہ بنو ساعدہ کا واقعہ تو مشہور ہی ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ وہاں ان کا اختلاف اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ کسی نے کہا’’ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ، اور دوسرے نے کہا کہ ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہو گے۔‘‘ چنانچہ ہوا یہ کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی ،م اور پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور جماعت جس نتیجہ پر پہنچی تھی اسے مان لیا گیا۔ کیونکہ ان کے مقاصد نیک تھے اور نفسانیت ان سے دُور تھی۔