کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 20
اُمت کے پاس جتنے اوامر و نواہی ہیں سب اختلاف ہی کو ہوا دیتے ہیں اور اسی راہ پر لگاتے ہیں ۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی توحید کے بعد باہمی اختلافات سے اجتناب ، تعلقات کو مکدر اور اخوت اسلامیہ کو مجروح کرنے والی ہر چیز کے ازالہ، اور اُمت مسلمہ کے اتحاد پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ۔ اور مبادیٔ اسلام نے بھی شرک باللہ کے بعد تخریبی اختلافِ اُمت ہی کو سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ سمجھ کر ایمان باللہ اور اتحاد مسلم ہی قائم رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ خداوند قدوس اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و احکام کی واضح دعوت بھی یہی ہے کہ ایک ایسی اُمت تشکیل پائے جو ایک جسم و جان بن کر رہے اور کسی کو بھی تکلیف پہنچے توہر ایک کو اپنا درد اور کمزوری محسوس کرے۔ اسلام ایک قابل عمل دعوت ہے جو انسانوں کے احوال و معاملات میں قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ خالق کائنات جو اپنی مخلوق پر مہربان ہے وہ اسے سب سے زیادہ جانتا اور سمجھتا ہے اس نے اپنے بندوں کو ایک دوسرے سے مختلف صلاحیت و لیاقت اور عقل و دانش عطا فرمائی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے موقف اور افکار و نظریات وغیرہ بہت سی چیزوں میں باہمی اختلاف ہے۔ اور اسلام بھی کشادہ دلی سے ایسے سنجیدہ اختلاف کی اجازت دیتا ہے جس سے وحدتِ اسلامی کو کوئی خطرہ نہ پہنچے۔ اہم مسائل اور اساسی قواعد میں یکساں موقف اور تصورات و آراء کا اتفاق ہو ۔ تو اتنا ہی کافی اور اُمت کے لیے مفید ہے۔ فروعی اُمور اور ثانوی معاملات کا جہاں تک تعلق ہے تو بہتر اور افضل کی تلاش میں اختلاف رائے ہونے میں کوئی حرج اور نقصان نہیں بشرطیکہ یہ اختلاف اپنے حدود و ضوابط اور اُصول و آداب کے اندر ہو اور اُمت کی وحدتِ فکر اور بنیادی مسائل میں اس کے موقف پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اختلاف کی حقیقت اور اس کے حدود ، اسباب و علل اور اس کے قواعد و ضوابط کیا ہیں ؟ اختلاف کی گنجائش کہاں تک ہے؟ اور اس کے منفی پہلو سے بچنے کی کیا راہ ہے؟ انہیں مباحث پر اس کتاب میں ان شاء اللہ ہماری گفتگو ہو گی۔