کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 193
آمیزش ہے۔ یہ حال ہے ان اختلاف کرنے والوں کا جنہوں نے اپنے دین میں فرقہ بندی کر دی ہے اور گروہ گروہ بٹ گئے ہیں ۔
ایک ملت کے تمام اختلاف قابل مذمت ہیں کیوں کہ اس سے تنازعہ اور فرقہ بندی لازم آتی ہے۔ دین تو اجتماعیت کے قیام اور فرقہ بندی کو ختم کر دینے کا حکم دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ﴾ (البقرہ: ۱۷۶)
’’جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دُور نکل گئے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا﴾ (یونس: ۱۹)
’’ابتداء میں سارے انسان ایک ہی اُمت تھے بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے۔‘‘
ایسے لوگوں کی مذمت ان کے اختلاف کرنے کی وجہ سے کی گئی ہے۔ لیکن جب اہل ایمان اور کفر کے درمیان ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ﴾ (البقرہ: ۲۵۳)
’’پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔‘‘
تو یہ مطلوب ہے کیوں کہ اس میں حق و باطل کی تمیز ہوتی ہے اور باطل کو زائل کرکے اس سے دُور رہا جا سکتا ہے۔
جب اداروں کے درمیان اختلاف واقع ہو تو اس اختلاف سے بھی اطاعت الٰہی اور لوگوں کے دلوں میں حق کو باطل سے صاف کرنے کا جذبہ ہو۔ یہ ان کے ساتھ رحم و کرم کا