کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 192
ہے نہ کہ خدا اور رسول کے دین کی خاطر۔ یہ ان کفار کے مشابہ ہیں جو صرف اپنی خواہشات کے مطالبات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں ، اس سے لوگوں کے درمیان فتنہ برپا ہوتا ہے۔
دین کی اصل یہ ہے کہ محبت اور عداوت اللہ کے لیے ہو ، دوستی اور دشمنی اسی کی خاطر ہو ، ہر طرح کی عبادت اسی کے لیے ہو اور اسی سے مدد طلب کی جائے۔ اُمیدیں اسی سے وابستہ کی جائیں ۔ خوف اسی کا کھایا جائے۔ عطا و بخشش کا اختیار اسی کو سونپا جائے۔ یہ صفات صرف اسی وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کی جائے۔ جن کا حکم اللہ کا حکم، جن کی نہی اللہ کی نہی ، جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت ، جن سے دشمنی اللہ سے دشمنی اور جن کی معصیت اللہ کی معصیت ہے۔
بندۂ نفس کو اس کا نفس اندھا اور بہرہ بنا دیتا ہے، اس کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا استحضار ہوتا ہے نہ وہ اس کاطالب ہوتا نہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا سے راضی اور نہ ان کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے بلکہ وہ اس وقت خوش ہوتا ہے جب اس کے ارادے اور خواہشیں پوری ہوں ، جب اس کی خواہش کے خلاف کام ہوتا ہے تو ناراض ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کو دین اور علم میں شبہہ ہوتا ہے یا وہ نصرتِ دین کے خلاف یا اتباعِ نفس کے مطابق کام کرتا ہے حالاں کہ واقعہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔
اگر مان لیا جائے کہ حق اسی کے پاس ہے لیکن اس کی نیت یہ ہوتی ہو کہ وہ اپنے نفس اور خواہشات کو قوت پہنچائے ، کلمۂ حق کی سر بلندی اس کی نیت نہیں ہوتی بلکہ اس کا ارادہ اپنے نفس یا گروہ کی طرف داری ہوتی ہے ، یا ریا کاری کا ارادہ ہوتا ہے تاکہ اس کی عظمت اور بڑائی بیان کی جائے یا وہ کوئی دنیاوی کام کرتا ہے جو اللہ کے لیے ہوتا ہے اور نہ اس کے راستہ کے لیے ، تو کیسے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب اس کے غیر کے ساتھ حق و باطل اور سنت و بدعت کی آمیزش ہے اور اس کے دشمن کے پاس بھی حق و باطل اور سنت و بدعت کی