کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 191
اور عیب نکالنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ کی تفسیر یہ ہے کہ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو۔ مسلمان پر پہلا واجب یہ ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے لیے ہو۔ اپنے قول و فعل سے اطاعت الٰہی کا ثبوت ۔نہ کہ اپنی وفاداری سے اپنی ذات اور پارٹی کی خاطر اقتدار کا طالب ہو۔ اسی طرح دوسروں کی تنقیص اور ان سے حسد نہ کرے۔ اپنے ان کاموں میں ریا و نمود کا ہر گز ارادہ نہ رکھتا ہو، اس سے اس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں اگرچہ اس کے اعمال ابتداء میں نیک ہوں اور فساد سے خالی ہوں ۔ لیکن جب اس کی بات ردّ کر دی جاتی یا اللہ کے لیے ہونے کی وجہ سے اس کو ایذا پہنچائی جاتی ہے اور اس بات کو غلط اور بُرے مقصد والا ثابت کر دیا جاتا ہے ، اس وقت مدد کا مطالبہ اپنے نفس کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے پاس شیطان آکر بات کو مزین کردیتا ہے۔ اس طرح اس کا کام آغاز میں اللہ کے لیے ہوتا ہے پھر خواہش نفس کے لیے ، اس پر دوسروں کی مدد چاہتا ہے اور بسا اوقات وہ ایذا پہنچانے والے کے ساتھ زیادتی کا سلوک کر بیٹھتا ہے۔
اسی طرح اختلاف اس وقت بھی برپا ہوتا ہے جب ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ حق اس کے ساتھ ہے اور وہی سنت پر ہے۔ اس طرح وہ اتباعِ نفس اور اپنے رتبہ و مرتبہ کے لیے مدد کی ضرورت میں پڑ جاتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو بلند کر کے دین کو اس کے لیے ۔خالص کرنا ان کا مقصد ہی نہیں ہوتا ہے ، بلکہ وہ اپنے مخالفین سے بغض رکھتے ہیں اگرچہ وہ مجتہد اور معذور ہی کیوں نہ ہوں ۔ خدا کے واسطے اس پر ناراض نہیں ہوتے جو ان کے موافق ہوتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں اگرچہ وہ جاہل اور بد نیت ہی کیوں نہ ہو ، اور اس معلومات سے یکسر خالی ہی کیوں نہ ہو ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تعریف نہیں کرتے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ لوگوں کی مذمت بیان کرتے ہیں جو (العیاذ باللہ ) اللہ اور اس کے رسول کی مذمت نہیں کرتے۔ اس طرح ان کی دوستی اور دشمنی اپنی خواہش نفس کے مطابق ہوتی