کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 189
روایت میں ہے : عورتوں کو مارتے ہیں لیکن تم اُسامہ سے شادی کر لو۔ [1]
ان کی جس چیز کی ضرورت تھی آپ نے اسی کا تذکرہ کیا۔ اسی طرح جب کوئی آدمی کسی سے ایسے آدمی کے بارے میں مشورہ کرے ، جس سے وہ معاملہ کرنا چاہتا ہے تو یہاں خیر خواہی کے حکم کو مقدر رکھتے ہوئے حقیقتِ حال بتا دینے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی۔ اگرچہ اس سے مشورہ طلب نہ کیا گیا ہو جیسا کہ تمیم داری کی روایت میں ہے۔[2]
اسی ضمن میں اہل علم کا وہ طرزِ عمل بھی آتا ہے جب وہ روایت حدیث یا کذب بیان کرنے والے لوگوں کی غلطی کو واضح کرتے ہیں یا جن سے علم حاصل کیا جا رہا ہو، ان کی غلطی واضح کی جائے۔ اسی طرح اس شخص کی غلطی واضح کر دینا جو دین کے کسی معاملے(علمی یا عملی) میں غلطی کر رہا ہو۔
اس طرح کے مسائل میں جب آدمی معلومات ، انصاف اور خیر خواہی کے جذبے سے کلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ثواب دیتا ہے۔ خصوصاً جب گفتگو کرنے والا اپنی گفتگو سے کسی بدعت کی دعوت دے رہا ہو تواس کی قباحت و شناعت بیان کر دینا واجب ہے کیوں کہ عوام سے اس بدعت کی خرابی دفع کرنا ڈاکوؤں کی خرابی دُور کرنے سے بڑا کام ہے۔ لیکن جب دو مسلمان باہم کسی مسئلے میں جھگڑ ا کرتے ہوں اور لوگ اس سے غیر متعلق اور اس کی حقیقت سے واقف نہ ہوں تو ایسے معاملے میں کلام کرنا بغیر علم اور انصاف کے ہو گا، دوسرے کی ناحق دخل اندازی ان دونوں کی تکلیف کا باعث ہو گا اور اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ گنہ گار و خطا کار ہیں تو بغیر کسی راجح مصلحت کے اس کا تذکرہ کرنا قابل مذمت غیبت میں شمار ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم، کتاب الرضاع ، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا۔
[2] الدین النصیحۃ کی طرف اشارہ ہے۔