کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 187
والے ہوتے ہیں ۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا o ﴾ (الاحزاب: ۵۸) ’’اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔‘‘ جس نے زندہ یا مردہ مومن کو بغیر کسی سبب کے تکلیف پہنچائی وہ اس آیت کا مصداق ہو گا، جو شخص مجتہد ہو اس پر کوئی گناہ نہیں اگر کوئی اس کو ایذا پہنچاتا ہے تو وہ اس کو اس کے ناکردہ فعل پر ایذا پہنچانے والا ہو گا۔ لیکن اگر کسی گناہ کے بموجب اس کی ایذا رسانی ہوئی ہے حالانکہ اس نے اپنے گناہ سے توبہ کر لی تھی یا کسی دوسرے سبب سے اس کے گناہوں کی بخشش ہو چکی تھی بایں طور پر اس پر گناہ کی وجہ سے کوئی سزا باقی نہیں رہ گئی تھی بلکہ اس پر آزمائش ہو چکی تھی۔ تو بھی اس کے کیے بغیر یہ ایذا پہنچائی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات: ۱۲) ’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔‘‘ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس انداز میں کرو جسے وہ ناپسند کرتا ہو، آپ سے پوچھا گیا کہ اگر جو بات کہی جا رہی ہے وہ میرے بھائی کے اندر موجود ہو؟ آپ نے فرمایا:اگر وہ برائی جو تم کہہ رہے ہو اس کے اندر موجود ہو تو یہی غیبت ہے اور اگر اس میں بُرائی نہ ہو تو تم نے گویا اس پر بہتان باندھا۔ [2]
[1] امام بخاری نے اس حدیث کی روایت مختلف مقامات پر کی ہے۔ مثلاً: کتاب الاضاحی ، باب ۵ ، کتاب الفتن، باب ۸۔ صحیح مسلم، کتاب الحج : ۱۴۷۔ کتاب القسامۃ ، باب تغلیظ تحریم الدماء ، والاعراض۔ [2] صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب تحریم الغیبۃ۔