کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 186
کتاب و سنت میں اس مسئلہ کا حل نہیں ہوتا توسنت رسول کے مطابق اور اگر اس میں بھی نہیں ہوتو تو قاضی اپنی رائے سے اجتہاد کرتے ہیں ۔ [1] اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو یہ حکم دیا ہے کہ سب اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور فرقہ بندی اختیار نہ کریں ۔ اس کی تفسیر اجتماعیت ، اپنی اطاعت ، احکام، اخلاص ، دین اسلام اور اپنی کتاب سے کی ہے۔ یہ تفسیر صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے منقول ہے ۔ یہ ساری تفسیریں صحیح ہیں کیوں کہ قرآن دین اسلام کا حکم دیتا ہے یہی اس کا عہد ، حکم اور اطاعت ہے اور تمام لوگوں کامِل کرپکڑنا اجتماعیت ہی میں ممکن ہے۔ دین اسلام کی حقیقت اخلاص ہے۔ صحیح مسلم میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے تین کاموں سے خوش ہوتا ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اختلاف نہ کرو۔[2] تمہارے معاملات اللہ تعالیٰ نے جن کے حوالے کر دیے ہیں (امراء) ان سے خیر خواہی کا معاملہ کرو۔ [3] اللہ تعالیٰ نے زندہ یا مردہ مسلمان کے ساتھ زیادتی کو حرام قرار دیا ہے۔نیز اس کی عزت و آبرو اور جان کو بھی ۔ بخاری و مسلم میں خطبہ حجۃ الوداع کا یہ ٹکڑا بار بار ملتا ہے: ’’یقینا تمہارے خون ، تمہارے اموال اور تمہاری عزت تم پر حرام ہے ، تمہارے اس دن ، اس مہینہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح، کیا میں نے اسلام کی بات تم تک پہنچا دی ، سن لو! یہاں پر موجود لوگ ان لوگوں تک بات پہنچا دیں جو یہاں سے غائب ہیں ۔ بہت سے باتوں کو پہنچائے جانے ولے لوگ سامع سے زیادہ حافظہ
[1] ملاحظہ ہو : شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنہ : ۵؍۳۲ اور اس کے بعد کے صفحات۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ ، باب النھی عن کثرۃ المسائل من غیرحاجۃ۔ [3] حدیث کے زائد ٹکڑے کی روایت امام مالک نے مؤطا کتاب الکلام میں کی ہے۔