کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 185
نبی اور اس کے ماننے والوں پر واجب ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا التزام نہ کرے وہ کافر ہے۔ یہ طرزِ عمل اُمت کے ہر مسئلہ میں واجب ہے چاہے وہ اعتقاد کے قبیل کے ہوں یا عمل کے قبیل کے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیّٖنٰتُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ﴾ (البقرہ: ۲۱۳) ’’ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے تب اللہ نے نبی بھیجے جو راہِ راست پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جا چکاتھا انہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیْے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗ اِلَی اللّٰہِ﴾ (الشوریٰ: ۱۰) ’’تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘ اُمت کے درمیان مشترکہ مسائل میں صرف کتاب و سنت کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی کے حق میں یہ بات درست نہیں کہ وہ کسی شیخ، امیر یا عالم کی بات کو لازم پکڑے رہے۔ جس کا یہ اعتقاد ہو کہ ان میں سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے پھر بھی وہ کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اس کا یہ اعتقاد کافرانہ ہو گا۔ مسلمان قاضی متعین معاملات میں فیصلہ کرتے ہیں تو بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کریں ، اگر