کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 184
حسد بھی نہ ہو اور نہ وہ خواہشات کا اتباع کرنے والا ہو۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابۂ کرام کے بعد لوگوں کے بارے میں جب ہم کلام کریں مثلاً مختلف ممالک کے بادشاہ اور علماء و مشائخ جو دین اور علم میں مختلف ہوں تو ہم پر واجب ہے کہ انصاف اور معلومات کی بنا پر گفتگو کریں نہ کہ جہالت اور زیادتی سے کیونکہ ہر حال میں انصاف ہر ایک پر اور ہر ایک کے حق میں واجب ہے اور زیادتی اور نا انصافی کسی بھی حالت میں مباح نہیں ۔ ہر حال میں حرام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدہ: ۸) ’’کسی گروہ کی دشمنی کو تم اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ ، عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔‘‘ صحابۂ کرام کفارِ مکہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بغض رکھتے تھے، جب کہ وہ بغض جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ، اپنے نبی کو اس سے منع کیا کہ جو تم سے بغض رکھے، اس کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔ بھلا بتائیے ایک مسلمان کے ساتھ بغض کسی تاویل ، شبہ یا خواہش نفس کی وجہ سے کیسے درست ہو سکتی ہے، مسلمان تو اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہر گز نہ کی جائے، بلکہ اس کے ساتھ انصاف کا سلوک کیا جائے۔ [1] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : انصاف ایک ایسی شے ہے جس کی تعریف اور جس سے محبت کرنے پر اہل زمین کا اتفاق ہے۔ نیز انصاف پرور کی تعریف اور اس سے محبت پر بھی سب کا اتفاق ہے۔اسی طرح زیادتی ، اس سے عناد کرنے ، مذمت کرنے اور اس کی قباحت بیان کرنے پر ، نیز زیادتی پسند کی مذمت اور اس سے عناد پر بھی سب کا اتفاق ہے۔معروف معنوں میں عدل وہ ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا۔ یہ عدل کی سب سے اچھی اور بہتر قسم ہے۔ اس حکم کی اطاعت
[1] منہاج السنۃ: ۵؍۱۲۶۔