کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 183
اخوانیوں سے ہوتی ہے یا وہ ان کی ہم نشینی اختیار کرتا ہے ، یا فلاں کا تعلق سروریوں سے ہے۔ قابل تعجب بات یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ جرح و تعدیل کر کے آگے کی راہ ہموار کر رہے ہیں ، وہ اس کام کے لیے جاہل سرداروں کو نشانہ بناتے ہیں ، لہٰذا خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے اور ان بے چاروں کے بارے میں طلباء سے چار گنا یادس گنا زیادہ تقویٰ اختیارکرے۔ صحیح روایت میں ہے: بخدا! اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک آدمی کو ہدیت دے تو یہ سو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔[1] یعنی دنیاوی اعتبار سے بہتر ہے۔ اسی طرح جس کے ذریعہ سے کوئی ایک گمراہ ہو گیا تو اس کا جرم بڑا ہے۔ حضرت آدم کے بیٹوں میں سے ایک کے قتل کر دیے جانے کے بعد کی صورتِ حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ جکَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ﴾ (المائدہ: ۳۲) ’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا او رجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔‘‘ دینی کاموں میں انسانوں کو گمراہ کر دینا بکثرت قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دینی مسائل میں گفتگو کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی دلیل ہونی ضروری ہے۔ اس بحث کا مقصد رضائے الٰہی ہو اور اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ نہ ہو اور حامل کتاب و سنت کے مدعی کے اندر
[1] صحیح بخاری ، کتاب الجہاد ، باب دعاء النبی الناس الی الاسلام۔ ابو داؤد، کتاب العلم، باب نشر العلم۔