کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 182
اتباع کرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہ حالت اسی کا ثمرہ ہیں جن میں ہمارے نوجوان زندگی گذار رہے ہیں ۔ خاص کر ان کی مصروفیت صرف یہ رہ گئی ہے کہ وہ گروہ بندی ، لا یعنی گفتگو ، زبان درازی اور لوگوں کی عزت و ناموس پر حملہ کریں بلکہ اپنی ساری توجہ ان کی طرف کر کے بلا کسی جرم کے تنقید و تنقیص کے تیر مارتے رہتے ہیں ۔ ایک مرتبہ میں نے ان لوگوں میں سے ایک کی گفتگو بغور سنی جو ایک داعی کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ وہ علماء کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ یہ لوگ کام بہت کرتے ہیں اور بڑی ذمہ داریاں اُٹھاتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان کے ایسے کاموں کا متحمل نہ بنائیں جن کو کر گذرنے کی ان کے اندر قوت نہ ہو اور ہم پر یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی ہمت افزائی اور ان کا تعاون کریں اور ان خامیوں کو دُور کریں جو ان میں پیدا ہو گئی ہیں ، پھر وہ اپنی اس گفتگو کو خلاف تنقید قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ علماء اور مشائخ میں کمی ہے اور ان کی قدر نہ کرنا ہے۔ آخر تک اس کی بکواس بخار زدہ شخص کے بکواس کی طرح تھی ، مجھے نہیں معلوم کہ یہ غیرت مند ناقد علماء کے بارے میں کیا کہنا چاہتا ہے؟ کیا یہ چاہتا ہے کہ داعیوں کو معصوم رسولوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے جیسا کہ روافض کہتے ہیں یا اس کو کوئی خرابی نظر نہیں آئی تو لوگوں میں یہ اشتباہ پھیلا رہا ہے کہ داعی راہِ حق سے خارج ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے کرتوت کے نتیجے نے اکثر نوجوانوں کو شبہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ بعض لوگ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان راستوں کا اتباع کر رہے ہیں جو یہ تنقید نگاروں نے راہِ حق کے موافق تصور کر کے ان کے لیے متعین کر دیے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اس کے راستہ سے بآسانی موڑ سکیں ۔ بعض لوگ وہ ہیں جن کے اور علماء و مشائخ کے درمیان بڑی دُوری و اجنبیت ان ہی تنقید پسندوں کی وجہ سے ہو گئی ہے اور ہر طبقہ دوسرے سے کافی دُور ہو گیا ہے۔ بعض لوگ وہ ہیں جو لوگوں کی حسب معلومات درجہ بندی کرتے ہیں ، جس میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ فلاں کو اخوانی کہتے ہوئے سنا جائے کیونکہ اس کی بات چیت