کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 180
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی اصلاح کا حکم دیا ہے اور اس بات سے باخبر کیا ہے کہ باہمی رنجش مونڈ لینے والی ہے اور یہ دین کو مونڈ لیتی ہے۔[1] یعنی اعتصام بکتاب اللہ اور ایمان و شریعت کے ضابطوں کا تقاضا ہے کہ حق کے معاملہ میں ایک ہو کر اس پر اتفاق کیا جائے ، ایمان وشریعت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جو شخص دین کی اس ہدایت کو نظر انداز کر دے گا اس کے نتیجے میں اختلاف اور دشمنی حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ﴾ (البقرہ: ۱۳۷) ’’پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیرلیں تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ضروری قرار دیا ہے کہ ہماری وحدت اور ہمارا اجتماع کتاب للہ کی وجہ سے ہو ، ہماری اجتماعیت اسی کی بدولت ہو اور اسی کو ہم لازم پکڑیں ، نہ کہ گم کردہ راہوں ، ایجاد کردہ مذاہب کو اختیار کریں اور نہ وطنیت پر فخر کریں اور نہ باطل پالیسیوں کو اختیار کریں جو حق و ہدایت کے علاوہ ہوں ۔ اعتصام بحبل اللہ اور اجتماعیت کے حکم کے بعد فرقہ بندی ، جدائی اورالگ ڈگر اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں وحدت کا زوال ہو جاتا ہے۔ یہی غلبہ و قوت کا محور ہے ، عزت سے حق کو غلبہ ملتا ہے تو وہ باطل پر غالب ہو جاتا ہے اور قوت سے وہ اپنے دشمنوں کے مکر و فریب اور حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔ فرقہ بندی کی ممانعت کے ساتھ اس کی اور اس کے بُرے انجام کی سخت وعید بھی آئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُالْبَیِّنٰتُ
[1] کتاب الاعتصام: ۴۲۳ اور اس سے ما قبل کتاب البر والصلۃ ، باب تحریم التحاسد۔