کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 179
اہل بدعت کے۔ ان کی توبہ قابل قبول نہیں ہو گی۔میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری[1] ہیں ۔‘‘[2] امام شاطبی مزید فرماتے ہیں : اہل بدعت کے اوصاف بیان کردینا غیر مناسب نہ ہو گا لیکن ان اوصاف کو کسی متعین گروہ پر ثابت نہیں کیا جا سکتا، کہیں ایسانہ ہو کہ یہ طرزِ عمل فرقہ بندی ، ناپسندیدگی کی راہ ہموار کر دے اور اُلفت و محبت سے خالی ہو کر اس کے برخلاف کی طرف دعوت ہو جائے، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے اُلفت و محبت کا حکم دیا ہے۔ فرمایا: ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: ۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ﴾ (الانفال: ۱) ’’ تم لوگ اللہ سے ڈرواور آپس کے تعلقات درست کرو۔‘‘ مزید فرمایا: ﴿وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o مِنَالَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا﴾ (الروم: ۳۱، ۳۲) ’’اور نہ ہو جاؤ ان مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیاہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔‘‘ ایک حدیث ہے کہ ’’آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے کی بُرائی بیان نہ کرو اور آپس میں بغض نہ رکھو اور باہم اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہو جاؤ۔‘‘ [3]
[1] ابن جریر اور ابن مردویہ نے اس کی روایت کی ہے۔ اس کا مرفوع ہونا نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اس کی سند میں عباد بن کثیر نامی راوی متروک ہے۔ [2] شاطبی ۔ الاعتصام: ۴۵۔ [3] صحیح بخاری ، کتاب الادب، باب ما ینھی عن التحاسد والتدابر۔ مسلم نے بھی اس کی روایت کی ہے۔