کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 177
باہم محبت کرنے والے ، حق پر قائم اور حبل اللہ ( قرآن) کو مضبوط پکڑنے والے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض صحابۂ کرام بعض شرعی معاملات میں اختلاف کیا کرتے تھے، لیکن اس اختلاف کی وجہ سے وہ فرقہ بندی کی طرف نہیں جاتے تھے اور مختلف گروہ بندی نہیں کرتے تھے کہ ہر گروہ دوسرے کا دشمن ہوجاتا۔ جس طرح کہ عصر حاضر کے اکثر اہل علم کرتے ہیں ۔ صحابۂ کرام اختلاف کے وقت فرقہ بندی کی طرف اس وجہ سے نہیں جاتے تھے کہ وہ کتاب و سنت کو مضٍوطی سے پکڑنے والے ہوتے تھے۔ ان کا اختلاف ان استنباط اور شریعت کی کلیات و نصوص کی فکر میں ہوتا تھا جن میں ان کو کوئی نص صریح نہیں ملتا تھا۔ ان کے اس طرزِ عمل پر تعریف کی گئی اور اجر سے نوازا گیا۔ صحابۂ کرام کے مابین اختلاف کے چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔ بھائی کے ساتھ دادی کی میراث کے سلسلے میں اختلاف ، امہات الاولاد کی بیع کے جواز پر اختلاف اور قبل از نکاح وقوع طلاق پر اختلاف ، اسی طرح بیوع کے دیگر مسائل کا اختلاف ، اس کے علاوہ اور بھی مثالیں ہیں جن میں ایک نے دوسرے سے اختلاف کیا ہے ، اس کے باجود وہ باہم اُلفت کا برتاؤ کرنے والے اور ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے، اسلامی اخوت کا رابطہ ان کے درمیان قوی تھا۔ امام شاطبی فرماتے ہیں : ’’اسلام کے پیش آمدہ ہر مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن اس اختلاف نے ان کے درمیان باہمی بغض و عداوت پیدا ہونے نہیں دیا اور نہ وہ کوئی ایسا فرقہ بنیجس کو ہم اسلامی مسئلہ جانتے ہیں ، ہر پیش آمدہ مسئلہ جو قطع رحمی ، نفرت ، طعنہ زنی اور دشمنی پیدا کرے ، اس کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ دینی اُمور سے اس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل آیت ( الانعام: ۱۵۹) کی تفسیر سے جو مراد لیا ہے یہ وہی ہے ، ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَہُمْ وَکَانُوْ اشِیَعًا﴾ (الانعام: ۱۵۹) ’’ جن لوگو ں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے۔‘‘ ہر صاحب عقل و شعور دین دار کے لیے ضروری ہے کہ ان خرابیوں سے اجتناب کرے۔