کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 176
کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب کیا جائے، دین پر برضا و رغبت قائم رہا جائے۔ خیر کے کاموں میں تعاون کیا جائے ، اس کے احکام کے سامنے سر نگوں ہوئے اور معصیت سے دُور رہ کر اسلام کی حالت میں مرنے کی فکر کی جائے۔ کیونکہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ اس کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رہیں ، فرقہ بندی ، اختلاف اور تنازع سے دُور رہیں ۔ یہ خرابیاں دشمنی اور قطع رحمی کی طرف دعوت دیتی ہیں ۔ پھر اس کے نتیجہ میں بزدلی ، کمزوری اور دشمنی کا تسلط لازم آتا ہے۔ بندے اس کے نام پر شکر ادا کریں کہ اس نے اپنے دین پر قائم رہنے اور اخوت و محبت کی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید یہ حکم دیا ہے کہ لوگ خیْر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے داعی بنیں ، فرقہ بندی کے نقصانات اور اس سے مرتب ہونے والی دشمنی ، باہمی بغض و قتال کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی سے روکا ہے جیسا کہ ماقبل کے لوگوں کے ساتھ یہ پیش آچکا ہے ، ان کے حالات سے عبرت پکڑنا ہمارے لیے لازم ہے تاکہ ہم کو وہ مصائب نہ لاحق ہوں جن سے وہ دوچار ہو چکے ہیں ۔جو شخص اس برائی کا مرتکب ہو گا، اپنے رب سے ملاقات کے وقت یا انصاف ملنے کے یقین ہو جانے کے وقت (قیامت کے دن) اس کا چہرہ سیاہ ہو گا حالانکہ اس دن حق پرستوں اور ان لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے ، جو فرقہ بندی اور اختلاف سے ہٹ کر صرف کتاب اللہ کو لازم پکڑنے والے تھے، ان کو حق کی معرفت تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔باطل کی قباحتوں اور اس پر چلنے والوں کے بُرے انجام سے واقف ہو کر اس سے دُور رہے۔ یہ تمام باتیں اجتماعیت اور اُلفت و محبت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور فرقہ بندی و اختلاف کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیتی ہیں ۔ جس کے اندر چو ر دروازہ پیدا ہو گیا وہ اجتماعیت سے خارج ہو جائے گا۔ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا ہو گا اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا ہو گا۔ گمراہوں اور خواہشات کے بندوں کی یہی علامت ہے۔
اہل علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بعض علمی مسائل میں اختلاف کرتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی