کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 173
کرے بلکہ اس کے حکم پر رضا مند ہو اور مطلقاً اس کو مان لے ورنہ اس کو مومن تصور نہیں کیاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَیاللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء : ۵۹) ’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیرو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت نے ہر نزاعی معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے کو واجب قرار دیا ہے اس لیے اس آیت میں ’’فی شیئٍ ‘‘ عربی قواعد کے لحاظ سے نکرہ ہے جو معمولی نزاع کو بھی شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ نزاع کے وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا ایمان کا تقاضا ہے ، جب نزاعی معاملہ میں فیصلہ کے لیے کتاب و سنت کی طرف رجوع نہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسا کرنے والا ایمان سے خالی ہے۔ اس مفہوم کی صراحت سابقہ آیت میں بطورِ مفہوم مخالف کے کی جا چکی ہے۔[1] اللہ کی طرف رجوع کا مطلب اس کی کتاب کی طرف رجوع ہے ۔ اور رسول کی طرف رجوع کا مطلب اس کی سنت کی طرف رجوع ہے۔ اس مفہوم پر علماء کا اجماع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o ﴾ (النور: ۶۳) ’’رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کے خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔‘‘ یعنی جو شخص ظاہر و باطن میں اپنے قول وعمل سے رسول کا اتباع نہیں کرتا ہے اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر نہ لگا دے اور اس کے بُرے عمل کو مزین کر دے کہ وہ
[1] یعنی سورۂ نساء ، آیت : ۶۵ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک۔