کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 170
وہ ان چیزوں کا بندہ ہے کیوں کہ اس کی بدولت اس کا کام ہے ، اسی وجہ سے وہ خوش اور ناراض ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس کو عطا کیا جائے تو خوش ہوتا ہے اور روک لیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب ھویٰ اپنے نفس کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہِ غِشَاوَۃٌ فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ ﴾ (الجاثیہ: ۲۳) ’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ، اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے۔ ‘‘ سیّدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ صحیح روایت جو ان تین اشخاص کے بارے میں ہے ، کہ جہنم ان کے ذریعہ بھڑکائی جائے گی: ۱۔ جس نے علم اس وجہ سے حاصل کیا تاکہ اس کو قاری و عالم کہا جائے۔ ۲۔ جس نے اس مقصد سے جہاد کیا تاکہ اس کو بہادر اور پہلوان کہا جائے۔ ۳۔ جس نے اس مقصد سے صدقہ کیا تاکہ اس کو سخی اور فیاض کہا جائے۔ [1] ان لوگوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ ان کی تعریف کریں ، ان سے رتبہ حاصل کریں اور ان کی تعظیم کریں ، اپنے ان افعال سے انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اگرچہ ان کی ظاہری صورتیں اچھی تھیں ۔ دُوسری روایت میں ہے: جس نے علم اس لیے حاصل کیا کہ وہ علماء پر فخر کرے کم عقلوں سے مناظرہ کرے یا اس کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے ، اس کے اس
[1] صحیح مسلم، کتاب الامارۃ ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ ۔ ترمذی ، باب الزھد ۔ مسند احمد: ۲؍۳۲۱۔