کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 17
نے ایک خدائے برحق کے سامنے جھکا دیا۔ آج مسلمان اکثر میدانوں میں مادی وسائل و اسباب کے اعتبار سے خود کفیل ہیں ۔ اس کے باوجود اسباب اور افکار دونوں لحاظ سے ایک مظلوم اور کمزور قوم بن چکے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ ان اقدر و روایات سے ہاتھ دہو بیٹھے ہیں اور ان مشترکہ تجزیاتی بنیادوں سے دُور ہو چکے ہیں جو انہیں متحد و منظم رکھ سکتی ہیں ۔ ان کی زندگی کو اسلامی قانون کی راہ پر چلانے کے عناصر ختم ہو چکے ہیں اور ان کی فکری عمارت متزلزل ہو چکی ہے۔ ہماری دعوت یہ ہے کہ وہی پرانا رنگ اپنا یا جائے اور معتدل و منظم فکر مسلم دوبارہ بیدار کی جائے جس کی صرف ایک صورت ہے کہ کتاب و سنت اور ان کتب اُصول کی طرف رجوع کیا جائے جن میں ہمارے علماء نے ضبط رائے کے لیے قیاس و استنباط کے آداب اور قواعد و ضوابط مرتب فرما دیے ہیں ۔ ایسے مطالعہ کو فروغ دینا بھی ضروری ہے جو اتحاد اُمت اور اس کے مشترک تجزیے کی بنیاد مضبوط کرے۔ اسی طرح ایک ایسا تربیتی نصاب تیار ہونا چاہیے جو علم و دانش کے صحیح آداب سے مزین ہو اور اتحاد پیدا کرنے والے مواد تو پیش کیے جاتے رہیں مگر رفض و خروج اور اختلافی کتابوں پر زیادہ توجہ نہ دی جائے۔ زیر نظر کتاب ایسے وقت سامنے آئی جب کہ مسلمانوں کو اس کی شدید ضرورت تھی۔ اس اہم موضوع پر یہ ایک مبارک اور اطمینان بخش کوشش ہے جس سے تعلیم یافتہ مسلمان اچھی طرح سمجھ لے گا کہ استنباط مسائل کے لیے علماء کا طریقہ کار کیا تھا۔ کن اُصول پر ان کے اجتہاد کی عمارت کھڑی تھی اور ان کے اختلاف کی تعمیری بنیاد کیا ہوا کرتی تھی۔ اس کے ذریعہ معلوم ہو جائے گا کہ اختلاف کے بھی کچھ اُصول و آداب ہوا کرتے ہیں جنہیں ہر مدعی اجتہاد جس کے اندر اس کی صلاحیت اور اس کے لوازم و متعلقات نہ ہوں اسے صحیح ڈہنگ سے کبھی انجام نہیں دے سکتا اور احتساب عمل کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جو انہیں جانب داری اور انتہا پسندی