کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 169
مسلمان مومن کو اپنا بندہ کہا ہے ، ہم ان ناموں سے انحراف نہیں کر سکتے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو پکارا ہے اور ان ناموں کی طرف نہیں جا سکتے جنہیں بعد کی قوموں نے ایجاد کیا کہ ان کے آباؤ و اجدد ان ناموں کو پکارتے تھے۔ ان ناموں کی وجہ سے کسی کو آزمائش میں ڈالنا اور ان سے دوستی نہ کر کے دشمنی کرنا جائز نہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مخلوق میں زیادہ باعزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو ، اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ [1] دینی معاملہ میں گفتگو کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی نیت خالص ہو اور حق کا متلاشی ہو ، اتباع ھویٰ کے برخلاف نفس پر مجاہدہ سے غالب ہو اور نفس کے دنیاوی فائدوں کی طرف میلان بھی غالب نہ ہو۔ دنیوی فائدہ مثلاً تعریف پسندی ، اس کا اظہار ، کثرتِ اتباع یا اس سے بھی گئی گذری صفتیں اور دنیاوی سازو سامان کا حصول ہے۔ جماعتوں اور افراد کے اکثر اختلاف کو دیکھنے سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں عدل و انصاف کے طالب ہیں اور انحراف سے نالاں ۔ ان اختلافات کا تعلق چاہے علمی مسائل سے ہو یا عمل و توجہ کے میدان سے، اس کی محبت حقیقت میں عبادتِ نفس اور اتباع ھویٰ کی محبت ہوتی ہے یا اس اس کے بُرے اور پست مقاصد ہوتے ہیں حالانکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کا نفس اس کو اندھا اور بہرہ بنا دیتا ہے اور اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیتا ہے اور کبھی ان اختلافات کا رُخ شخصیت کی طرف مڑ جاتا ہے یا کسی اور متعین پست مقاصد کی طرف۔ اگرچہ اس پر دینی غیرت کا غلاف اوراظہارِ حق کا ارادہ ہوتا ہے لیکن واقعہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔ جس کی صفات یہ ہوں اور جو مندرجہ ذیل قول رسول کے طرز پر چلے۔ دینار و درہم اور پیٹ و جسم کا بندہ ہلاک ہو ، اگر اس کو عطا کیا جائے تو راضی برضا رہتا ہے اور نہ عطا کیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے۔ وہ ہلاک ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ [2]
[1] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ : ۳؍۴۱۵۔ [2] صحیح بخاری ، کتاب الجہاد، باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ ۔