کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 167
اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ o ﴾ (المؤمن: ۲۶) ’’چھوڑو مجھے میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے اپنے رب کو ، مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔‘‘ فرعون سمجھ رہا تھا کہ وہ اصلاح پسند اور دین کا محافظ و نگہبان ہے اور دین کو ردّ و بدل سے بچا رہا ہے لیکن موسیٰ زمین میں فساد اور دین میں تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔اہل ھویٰ کے نزدیک حقائق ایسے ہی بدل جاتے ہیں ۔ یہ لوگ زمین میں بلندیٔ رتبہ کے خواہاں ہوتے ہیں ، فتنہ پرور ان کے نزدیک اصلاح پسند اور حقیقی معنوں میں اصلاح پسند فتنہ پرور ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا انکار اور ان کے بارے میں تنازعہ کھڑا کرنا ان کی دلیلیں ہوتی ہیں ، جن کو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے ان کے دین کی حفاظت و نگہداشت کی جا سکے گی۔ اس کے بالمقابل اللہ کا دین قابل تغیر و تبدیلی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ عام انسانوں کی خواہش کے مطابق ترتیب بناتے ہیں ،کسی کو اخوانی تو کسی کو سلفی اور کسی کو تبلیغی کہتے ہیں ، اسی طرح کسی کو سروری اور خونجی بھی کہتے ہیں ۔ مزید اسی طرح کے دوسرے ناموں سے بھی پکارے جاتے ہیں جن ناموں کے جواز میں اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اُتاری ہے اور نہ مسلمانوں کے دین میں اس کی گنجائش ہے۔ بلکہ یہ تو جاہلیت کا طریقہ ، عصبیت کی باتیں اور فرقہ پرستی ہے۔ اگرچہ سلفی کا نام آثار میں ملتا ہے ، اس لقب سے مقصود وہ لوگ ہیں جو صحابۂ کرام یا ان کی اقتدا کرنے والوں کا اتباع کرتے ہوں اس کے باوجود اگر وہ تعصب کا شکار ہو کر کسی ایک فرقہ کی طرف مائل ہو جائے تو یہ شریعت میں قابل نفرت ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ایک واقعہ اس طرح کا ملتا ہے کہ ایک مرتبہ دو لڑکوں (ایک انصاری اور ایک مہاجر)نے آپس میں جھگڑا کر لیا ، مہاجر لڑکے نے یا مہاجر کہہ کر اور انصاری نے یا انصار کہہ کر پکارا ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ کیا اہل جاہلیت کی پکار ہے ، اس طریقہ کو ترک کر دو ، یہ بدبو دار ہے۔ [1]
[1] صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب نصر الاخ ظالماً او مظلوماً۔