کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 166
﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَکْفُرُُوْنَ بِمَا وَرَآئَ ہٗ وَ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآئَ اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ﴾ (البقرہ: ۹۱) ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں : ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں (بنی اسرائیل میں ) اُتری ہے ۔ اس دائرہ سے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور اس کی تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ ‘‘ جو اس صفت کا خوگر ہوتا ہے اس کے اندر ظلم و عدوان پیدا ہوتا ہے ، اپنے نفس کی مخالفت کرنے والے کا یہ خلاف ہو جاتا ہے یا بسا اوقات وہ اس آدمی کے بھی خلاف ہو جاتا ہے جو واجبات یعنی علم کی نشرو اشاعت اور دعوت و تبلیغ کا کام کرتا ہے۔ وہ گویا اس کی نگاہ میں حق سے روکنے والا یا باطل کے ساتھ حق کو گڈ مڈ کرنے والا ہوتا ہے۔جیسا کہ یہودی علماء کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o ﴾ (آل عمران : ۷۱) ’’اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔‘‘ پھر آپ دیکھیں گے کہ ایسا آدمی اپنے مخالف کو نفرت آمیز القاب سے پکارنے لگتا ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مخالف ہے ، ایسا صرف تفرقہ اور فتنہ برپا کرنے کی خاطر کرتا ہے ، اپنے اس فعل سے وہ یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اصلاح اور فساد کو دفع کرنے کا طریقہ اختیار کر رہا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ذَرُوْنِی اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ