کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 164
اس کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کی مدد نہ کرے اور اس کو ہدایت نہ دے تو اس کے نفس سے اس کا ظہور ہو جائے اور وہ ان ہلاکتوں میں مبتلا ہوجائے جن میں ابلیس اور فرعون اپنی قوت اور سلطنت کے بقدر مبتلا ہو گئے تھے۔
بعض اسلاف کا کہنا تھا کہ کوئی نفس ایسا نہیں ہے جس میں یہ خصوصیات نہ ہوں سوائے اس کے کہ فرعون کو اس کے اظہار کی قدرت تھی تو اس نے ظاہر کر دیا اور دوسرے اس سے عاجز رہے اور چھپائے رکھے۔[1]
عقل مند جب اپنے نفس کے مزاج اور لوگوں کے احوال سے واقف ہو جاتا ہے تواس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ ہر آدمی اپنی قوت و حالت کی بہ نسبت بلندی اور اطاعت نفس کا متمنی ہوتا ہے، حسب امکان نفوس کے اندر اقتدار اور سر بلندی کی خواہش ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو آپ پائیں گے کہ دوسرے جو لوگ ان کے مزاج کے موافق ہوتے ہیں ان سے دوستی کرتے اور جو ان کے مزاج کے خلاف ہوتے ہیں ، ان سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ان کے معبود، ان کی تمنائیں اور خواہشات ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوَاہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیلًاo﴾ (الفرقان: ۴۳)
’’کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیاہو۔‘‘
جو اس کے نفس کے مطابق ہو جاتا ہے ، اس کی باتوں کو سنتا اور اس کی اتباع کرتاہے تو وہ اس کا جگری دوست بن کر اس کے قریب ہو جاتا ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہی کیوں نہ ہو بلکہ وہ شرک اور کفر کا ارتکاب ہی کیوں نہ کر رہا ہو اور جو اس کے مزاج کے موافق نہ ہو تو وہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے اگرچہ وہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں کے مابین یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اکثر مسلمان دوسروں سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں
[1] اس بات کا تذکرہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا ہے۔