کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 162
کے مریض بنے ہوئے ہیں ۔‘‘ اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ بات اسی کی صحیح ہے اور اس کے حق میں اس کے پاس قابل غور دلیل ہو۔ اس کا مقصد بھی اتباع ظن ہو تا ہے ، جو حق سے بے نیاز نہیں کر سکتا، اس کی دلیل چند فاسد شبہات ہوتے ہیں جو مجمل الفاظ اور مشتبہ معنوں سے مرکب ہوتے ہیں ۔ جس کے حق و باطل میں تمیز نہیں کیا جا سکتا ، لیکن جب حق کی تمیز باطل کے درمیان کر لی جاتی ہے تو اشتباہ زائل ہو جاتا ہے۔ یہ معلوم کرلینا ہم سب پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انبیائے کرام کے قصوں کو ہمارے لیے بطورِ عبرت بیان کیا ہے ، اس کی ہم کو ضرورت ہے اور اس میں حکمت ہے۔ عبرت اسی وقت ہو گی جب ہم اپنے اوپر واقع شدہ واقعات کو گذشتہ اقوام کے واقعات اوران کے جزا و سزا پر قیاس کریں اگرچہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کی طرح اکثر لوگوں کے نفوس نہیں ہیں پھر بھی ہم کو ان لوگوں سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی ہم جس کے قول میں مشابہ ہیں اور نہ فعل میں یا نفس میں چھپی ہوئی بُری خصلتوں میں جو ہمہ وقت باہر نکل جانے کی تاک میں ہے ، لیکن معاملہ وہ ہے جو اللہ نے فرمایا ہے: ﴿کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ﴾ (البقرہ: ۱۱۸) ’’ایسے ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں ) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں ۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ o ﴾ (الذاریات:۵۲) ’’یونہی ہوتا رہا ہے ، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسانہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔‘‘