کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 161
اپنے لیے عہدہ و منصب کا طلب کرنا بھی ھویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت ان کے اپنے خواہش نفس کی اتباع کی وجہ سے کی ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ شریعت کو بدلنے اور وحی و رسول کے انکار کا جرم کر رہے ہیں ۔ اس کا سبب خواہش نفس کا اتباع تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ o ﴾ (البقرہ : ۸۷) ’’جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سر کشی ہی کی ، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کردیا۔‘‘ مزید فرمایا: ﴿لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمْ رُسُلًا کُلَّمَا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُہُمْ فَرِیْقًا کَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَo﴾ (المائدہ: ۷۰) ’’ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا۔‘‘ اتباع نفس ، کفر و گمراہی کی جڑ ہے۔ ان دونوں کے مابین فرق بالکل واضح ہے۔ جو متبع نفس ہے وہ مذکورہ انجام تک پہنچے گا اور جو حق کی خلاف ورزی کرے گاوہ دو قسم کے حال سے خالی نہیں ہو گا یا تو وہ متبع نفس ہو گا یا ایسے ظن پر اعتماد کرنے والا ہو گا جو حق بات سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ﴾ (النجم: ۲۳) ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس