کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 157
اسی وجہ سے اسلاف نے ایسے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنے سے روکا ہے۔ ابو قلابہ فرماتے ہیں : نفس کے بندوں کی ہم نشینی مت اختیار کرو اور نہ ان سے منادلہ کرو میں اس خدشہ سے مطمئن نہیں ہوں کہ وہ تم کو اپنی گمراہی میں ڈبو دیں گے یا تمہاری معلومات میں اشتباہ پیدا کر دیں گے۔ [1] مزید فرماتے ہیں : ’’نفس کے بندوں کی ہم نشینی مت اختیار کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر تم ان کی طرح گمراہ نہ ہو سکے تو کم از کم وہ تمہاری معلومات کو مشتبہ کر دیں گے۔ ‘‘[2] یعنی خواہش نفس کا اتباع کرنے والا برائی سے محفوظ نہیں ہوتا۔ بندۂ نفس یا تو اپنے نفس کے برخلاف کام کرکے اس کے عمل کو باطل قرار دے گا یا جس دین کو وہ برحق جانتا ہے اس میں شبہ پیدا کر دے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’نفس کے بندوں کی ہم نشینی نہ اختیار کرو کیونکہ ان کی ہم نشینی دلوں کو مریض بنا دیتی ہے۔‘‘ [3] ابراہیم نخعی فرماتے ہیں : ’’نفس کے بندوں کی ہم نشینی مت اختیار کرو ، کیونکہ ان کی ہم نشینی دلوں سے ایمان کی روشنی کو ختم کر دیتی ، چہروں کی رونق کو سلب کر لیتی اور مومنوں کے دلوں میں بطورِ وراثت بغض ڈال دیتی ہے۔ ‘‘[4] مجاہد فرماتے ہیں : ’’بندۂ نفس کی ہم نشینی نہ اختیار کرو کیونکہ ان کے اندر عیب ہوتا ہے جیسا کہ خارش زدہ اونٹ کے اندر خارش کا عیب ہوتا ہے۔[5] یعنی جو ان سے قریب ہوتا ہے اس کو یہ بیماری لگ جاتی ہے جس طرح کہ خارش زدہ اونٹ کے قریب تندرست اونٹ ہو جائے تو اس کو یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔
[1] ابن بطہ نے ابانہ میں اس کی روایت کی ہے۔ نمبر ۳۶۳ ۔ لالکائی نمبر: ۲۴۴۔ دارمی : ۱؍۱۰۸۔ [2] ابن بطہ نے ابانہ میں اس کی روایت کی ہے۔ نمبر : ۳۶۷۔ [3] ابن بطہ: نمبر ۳۷۱۔ [4] ابن بطہ: نمبر ۲۷۵۔ [5] ابن بطہ : نمبر ۳۸۲۔