کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 156
﴿اِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰی o ﴾ (النجم: ۲۳) ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔‘‘ یہ صفت کفار کی ہے ، جس آدمی کے اندر اس صفت کی جتنی مقدار پائی جائے گی اس کے اندر کفار کی متابعت اسی کے بقدر مانی جائے گی۔ اپنے نبی برحق حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی o مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی o وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی o اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی o ﴾ (النجم: ۱ تا ۴ ) ’’قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا ، تمہارا رفیق نہ بہکا ہے نہ بھٹکا ہے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا ، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘ آپ کی ذاتِ گرامی کو گمراہی و ہلاکت سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں ظلمت و جہالت ہیں ۔ گمراہ اسی کو کہیں گے جو حق سے بے بہرہ ہو ، اور غاوی جو اپنے نفس کی اتباع کرتا ہو۔ اس آیت میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ خواہش نفس کے مطابق کچھ نہیں کہتے بلکہ یہ تو وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر کی جاتی ہے ، لہٰذا آپ کو علم سے متصف اور خواہش نفس سے پاک قرار دیا۔ [1] بندۂ نفس کا گمراہ ہونا ضروری ہے۔ یہ گمراہی علم کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور جہالت کی وجہ سے بھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر خواہش نفس کی خاطر علم کو ترک کر دیا جاتا ہے ، اس وقت ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ تاریکی میں ڈوب جائے۔ یہ تاریکی قول کی ہو یا فعل کی ، کیونکہ اس کا نفس اس کو نابینا بنا چکا ہے۔
[1] ملاحظہ ہو: فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳؍۳۸۴۔