کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 15
کبر و نخوت اور خود رائی اور خود پسندی نے جو کج فہمی پیدا کی ہے وہی آج کے ہمارے اختلافات کی غالباً سب سے بڑی بنیاد ہے۔ اور یہ مرض بھی ہے کہ آدمی خود کو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ صحیح اور حق وہی ہے جو اس کی زبان سے نکلتا ہے اور قیادت و رہبری نیز معاشرے کی تعمیر اسی طرح ہو سکتی ہے کہ دوسرے کو خواہ مخواہ باطل ٹھہراؤ۔ یہ معاملہ اتنا بڑھتا ہے کہ عداوت و دشمنی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالیٰ ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے۔ دوسروں کے عیوب و نقائص ڈھونڈنے اور ان کی تشہیر کرنے ہی سے ہمیں فرصت نہیں ملتی کہ اپنے ضمیر کا محاسبہ کریں اور اپنے آپ کو بھی دیکھ لیں ۔ جب کہ حدیث شریف میں ہے: ’’ اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جو دوسروں کے عیوب سے صرف نظر کر کے بس اپنا ہی عیب دیکھے۔‘‘ سلف صالحین کے درمیان بھی اختلاف تھا لیکن ان کا یہ اختلاف رائے افتراق و انتشار میں تبدیلی نہیں ہوا اور نہ ان کے دلوں کے اتحاد و اتفاق میں کوئی چیز رخنہ انداز ہو سکی۔ بعض خطائیں ان سے ہوئی مگر نفسانی امراض سے وہ پاک تھے اور وہ شخص جس کے لیے جنت کی بشارت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اس کی حقیقت حال اور اعمال کا جب صحابہ کرام نے پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ یہ بشارت ایسے شخص کے لیے ہے کہ جب وہ سوئے تو کسی مسلمان کے خلاف اس کے دل میں کوئی بغض و کینہ نہ ہو۔ لیکن آج ہم ایسے ہو چکے ہیں کہ ہمارے قلب و روح ہی کو مرض لا حق ہو چکا ہے اس لیے اتحاد کی دعوتیں اور اس کے کام اکثر فریب نفس اور ظاہری نمائش ہی لگتے ہیں اور دوسری قوموں کی طرح ہمارا حال بھی ہو چکا ہے۔حالانکہ رب تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ ذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ﴾ (الانعام: ۱۲۰)