کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 149
وہ عمل کرتا ہے۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ کچھ لوگ مصر میں سیّدنا عبداللہ بن عمر سے ملے اور ان سے کہا بہت سی چیزیں ہم دیکھ رہے ہیں جنہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے ہم اس سلسلے میں امیر المؤمنین سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد سیّدنا ابن عمر اور وہ سبھی لوگ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملے۔ سیّدنا عمر نے پوچھا: کیسے آئے؟ انہوں نے کہا: ایسے ایسے آنا ہوا۔ آپ نے پھر پوچھا: اجازت لے کر آئے ہو؟ حسن راوی کہتے ہیں میں نہیں جانتا انہیں کیا جواب دیا گیا۔ پھر ابن عمر نے کہا: امیر المؤمنین! کچھ لوگ مصر میں مجھ سے ملے اور کہا کہ اللہ کی کتاب میں کچھ ایسے احکام جنہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان پر عمل نہیں کیا جا تا۔ اس لیے انہوں نے اس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہے ، آپ نے ان سے فرمایا: سن سب کو بلا لاؤ ۔ چنانچہ میں نے انہیں اکٹھا کر دیا۔ اب آپ نے سب سے چھوٹے آدمی سے کہنا شروع کیا۔ میں اسلام کے واسطہ سے تمہیں قسم دے کرپوچھتا ہوں کہ تم نے پورا قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں ۔ کیا تم نے اپنے دل میں اسے پور اکیا ہے؟ ( یعنی پورے قرآن پر عمل کیا ہے؟) اس نے کہا: نہیں ۔ ( اگر وہ ہاں کر دیتا تو اس سے بحث شروع ہو جاتی) پھر فرمایا: کیا تم نے اسے اپنی نگاہ اپنے لفظ اور اپنے اثر میں پورا کیا ہے؟ اس طرح ہر ایک سے آپ پوچھتے گئے اور کہا: عمر کو اس کی ماں کھوئے کیا تم اس پر ایسا بار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ ہر ایک کو کتاب اللہ کا عامل بنا دے؟ ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ ہم انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہوں گی اور پھر اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: ﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عنہ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْوَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًاo﴾ (النساء: ۳۱) ’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت وشرافت کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘ پھر پوچھا کیا اہل مدینہ جانتے ہیں ۔ یا یہ فرمایا کہ … کیا اس سلسلے میں تمہاری آمد کا اہل