کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 148
اور مالک کے پیچھے تم نماز کیوں نہیں پڑھو گے؟‘‘ [1]
اسلامی اخوت اور اتحاد مسلمین کی تاکید سے یہ کوئی نہ سمجھ بیٹھے کہ بنیادی عقائد جن میں قواعد مسلمہ کے حدود میں احتمال تاویل نہ ہو ان میں بھی سستی اور تغافل برتا جا سکتا ہے۔ اعداء اُمت سے مقابلہ کا یہ مطلب نہیں کہ اخوتِ اسلامی کی دلیل سے ہم اپنا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں جو صرف نام نہاد مسلمان ہیں ۔ اختلافی مسائل جن سے باہمی انتشار و افتراق نہیں ہونا چاہیے بس وہی ہیں جنہیں ائمہ سلف نے مانا ہے جو ان کے حدودِ آداب میں داخل رہا۔ اور مختلف وجوہ سے جوازِ اختلاف کے ان کے پاس دلائل تھے۔
۴۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی عبادتوں کی ادائیگی کے تین درجے مقرر فرمائے ہیں ۔ افضل ، اختیار ، جواز ، یہ سارے درجے خدا کی بارگاہ میں مقبول ہیں لیکن ان کے مرتبے مختلف ہیں ، بہت سے فرائض و واجبات کی متعدد صورتیں مذکورہ اقسام میں داخل ہیں جنہیں ان کے متعینہ افضل شرعی شکل میں ادا کیا جائے تو افضل ثواب کے ساتھ ان کی مقبولیت ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص اوّل وقت میں نماز باجماعت پڑھے اور اس کی ساری سنتیں ادا کرے۔ اس سے کم درجہ اختیار کا ہے یعنی متعلقہ فریضہ انجام دینا۔ جیسے کوئی شخص نماز پڑھے مگر اوّل وقت میں اسے نہ ادا کرے بلکہ اس میں کچھ تاخیر کر دے۔ تیسرا مرتبہ جواز کا ہے جس میں …اگر وہ کچھ اور تنگی کردے تو نماز سے کوتاہی کرنے والوں میں اس کا شمار ہو جائے ۔ حدیث میں ہے اچھے لوگوں کی نیکیاں مقربین کی برائیاں ہیں … اور اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اپنے خیالات و معاملات کے فرق کے باجود لوگ اسلام کی سب سے اچھی مثالی صورت کو سامنے رکھ کر اس پر عمل کریں تو یہ کوئی آسان بات نہیں ۔ اگر عبادت و اطاعت کے مراتب میں تفاوت نہ ہوتا تو جنت میں مسلمانوں کے درجات میں فرق نہ ہوتا ۔ سارے انسانوں کی صلاحیتیں ان کی طاقتیں ایک دوسرے سے مخلف ہیں اور جس کے اندر جو استعداد ہے اسی کے مطابق
[1] الفواکہ العدیدہ از شیخ منقور: ۲؍۱۸۱۔