کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 147
ایمان کی چنگاری جو بھڑکنا چاہتی ہے اسے بجھا دیں اور وہ مبارک بیج جو مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باوجود زمین کا سینہ چیر کر باہر آنے اور برگ و بار لانے کو ہے اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں ۔
اللہ کی راہ میں اخوت اور مسلمانوں سے محبت و اتحاد کو فرائض میں اوّلیت حاصل ہے کیونکہ توحید سے اس کا قریبی تعلق ہے ۔ اسی طرح اخوتِ اسلامی کے خلاف کوئی قدم اُٹھانا بھی ممنوعات ومنکرات میں سر فہرست ہے۔ اسی لیے علماء سلف ’’خلاف ‘‘سے بچنے اور مسلمانوں کے باہمی ربط و تعلق خاطر کی رعایت سے افضل کو چھوڑ کر مفضول پر عمل کر لیتے تھے اور کبھی کبھی اپنے نزدیک جو امر مندوب ہوتا اسے چھوڑ کر جائز ہی پر اکتفا کر لیتے۔
شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھنے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے جس طرح صحابہ و تابعین کرام اور ان کے بعد ائمہ اربعہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اس کا منکر مبتدع، گمراہ اور کتاب و سنت و اجماع اُمت کا مخالف ہے۔ صحابہ و تابعین اور ان کے بعد مسلمان بسم اللہ پڑھتے تھے اور نہیں بھی پڑھتے تھے اس کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ جیسے امام ابو حنیفہ اور ان کے رفقاء و اصحاب اور ( امام ) شافعی وغیرہم مالکی ائمہ مدینہ کی اقتداء میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے اگرچہ وہ زور سے یا آہستہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ (امام) ابو یوسف نے رشید کے پیچھے نماز پڑھی جس نے پچھنا لگوا رکھا تھا۔ (امام ) مالک نے اس سے وضو واجب نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے تو اس کے پیچھے ابو یوسف نے نماز پڑھ لی اور اس کا اعادہ نہیں کیا۔ احمد ( ابن حنبل) کے یہاں نکسیر پھوٹنے اور پچھنا لگوانے سے وضو واجب تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا اگر امام کے بدن سے خون نکل جائے اور وہ وضو نہ کرے تو کیا میں اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں ؟ آپ نے کہا: سعید بن مسیب