کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 146
سے بھی ان میں تبدیلیاں آجاتی ہیں ۔
قرآنِ حکیم اور سنت و احادیث متواترہ کے نصوص قطعی الثبوت ہوتے ہیں ۔ بعض جیسے اخبار آحاد کا حکم ظنی الثبوت ہوتا ہے۔ دلالتِ نص کی کبھی قطعی اور کبھی ظنی ہوتی ہے جن کی معرفت ضروری ہے کیونکہ فہم نص اور استنباط و اجتہاد میں انہیں کا دخل و اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے نصوص شریعت سے تعارض و تناقض نہ ہو اور دلیل میں گنجائش اور لفظ میں جب تک احتمال باقی رہے اس وقت تک نص سے اپنے اخذ کردہ مفہوم کے خلاف کسی دوسرے عالم کے اختیار کردہ مفہوم کا رد و انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے فروعی اور عملی احکام کا ثبوت ظنی طریقوں سے ہے جن سے بندوں پر اللہ کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے تاکہ لوگوں کے لیے غورو فکر کا میدان کشادہ رہے۔ شارع حکیم نے آسانی کا دروازہ کھول رکھا ہے اور انسانوں کے مصالح کا اعتبار اور رعایت بھی ہے تو کسی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ اُمور مذکورہ میں اپنے کسی مخالف کی طرف کفر و فسق اور بدعت و ضلالت کا انتساب کرے بلکہ کوئی مناسب عذر سامنے رکھنا چاہیے جس سے رشتۂ محبت جڑا رہے جس کے صلے میں وہ بھی محبت و احترام پا سکے اور اخوت و مودت کی رعایت او راس کا ہر وقت پاس و لحاظ رہے۔
۳۔ اسلامی اخوت و اتحاد کی حفاظت اور اس کو ضعف و نقصان پہنچانے والی چیزوں کو راستے سے ہٹانا مسلمانوں کا سب سے عظیم واہم فریضہ اور سب سے اہم عبادت و اطاعت خداوندی ہے کیونکہ اسی اخوت کے ذریعہ ہم ان ساری مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں جو اسلامی نشاۃ ثانیہ کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفرقہ اندازی کو سخت ناپسند فرماتے ہوئے اس سے دُور رہنے کی تلقین فرمائی ہے اور جماعت مسلمین کے درمیان نفاق و افتراق پیدا کرنے والے کا خون مباح فرمادیا ہے۔ اسی لیے محض اختلاف رائے کی وجہ سے اسلامی اخوت میں کوتاہی یا اسے نقصان پہنچانا یا اس کے جال میں پڑنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔ بالخصوص موجودہ حالات میں جب کہ ساری اقوام ہمارے خلاف صف آرا ہیں اور ان کی خواہش و کوشش ہے کہ