کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 14
دیکھنے لگے۔ پھر کہا : کوئی بات نہیں ہم تمہیں پہنچاتے ہیں اور سب کے سب اُٹھ کر ٹھکانے تک پہنچے۔ (الکامل للمبرد: ۲/۱۲۲) اختلاف کی شدت اس حد تک پہنچ گئی کہ بعض مسلم فرقے جو صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے ان کے مخالف فکر و اجتہاد رکھنے والے مسلمان ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں مشرکین خود کو کچھ زیادہ ہی محفوظ و مامون سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ حریف و مقابل فرقے کو اپنی جان بچانے کے لیے شرک کی طرف انتساب کرنا پڑا۔ وَالْعَیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالیٰ اختلاف بڑھتا ہے تو اس کی خلیجیں وسیع سے وسیع تر ہو جاتی جاتی ہیں اور آدمی کے حواس پر اس کے اثرات اس حد تک چھا جاتے ہیں وہ ان متفقہ اُصول اور نقطہ ٔ اتحاد کو بہول بیٹھتا ہے جہاں سارے مسلمان باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں ۔ ایسے شخص کی نگاہ بس وہیں ٹھہرتی ہے جہاں اختلافِ خیالات و نظریات ہو۔ اس کی نظر میں اسلامی اخلاق کی ابتدائی چیزیں بھی نہیں آپاتیں جس کی وجہ سے اس کا معیارِ فکر بدل جاتا ہے اور وہ ظن کو قطعی ، متشابہ کو محکم، خفی الدلالۃ کو واضح الدلالۃ اور عام کو خاص سمجھنے لگتا ہے۔بیمار ذہن کو عموماً مخالفانہ ماحول اچھا لگتا ہے اور وہ ایسی جگہیں پسند کرتا ہے جہاں اختلاف و انتشار کی ہوا چل رہی ہو۔ نتیجتاً تکفیر مسلمین کے عمیق غار میں وہ گر پڑتا ہے اور اپنے مخالفین پر مشرکوں کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ کبھی کبھی مجتہدانہ اور فقہی دبستان جو اہل نظر کا حصہ ہے اس پر مقلدین و متبعین قبضہ کر کے فکری گروہ بندی ، سیاسی تعصب اور تفرقہ اندازی و تخریب کاری کی روشنی میں آیات و احادیث کی بے جا تاویلیں کرنے لگتے ہیں ۔ ان کی اس فکری جماعت پسندی کے خلاف جو آیت یا حدیث نظر آئے اس میں نسخ و تاویل کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور یہ تعصب کبھی اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ اس پر دورِ جاہلیت کا یہ مقولہ صادق آجاتا ہے: (( کَذَّابُ رَبیْعۃ افضل من صادق مضر۔)) ’’یعنی قبیلہ ٔ ربیعہ کا جھوٹا بھی قبیلہ ٔ مضر کے سچے سے بہتر ہے۔‘‘