کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 139
سے انہیں دو چار کیا جس کے بعد یہ یقین ان کے دلوں میں راسخ ہو گیا کہ اسلام ہی اُمت کے مسائل کو حل کر کے انہیں قعر مذلت سے نکال کر ان کی پسماندگی کے اسباب و وجوہ کا خاتمہ کر سکتا ہے اس لیے مختلف راہوں پر بھٹکنے کے بعد انہوں نے اسلام کی طرف رُخ کر نے کا فیصلہ کیا۔ اور یہ طے کیا کہ اب کوئی ایسا نظریہ شریک سفر نہ ہو سکے جس سے اپنے دین و ایمان اور جان کو خطرہ لا حق ہو سکے۔ دینی بصیرت اور احکام و مسائل جاننے کی مشکلات درپیش ہوئیں تو کسی سابقہ نصابی اور مربوط تعلیم جو فہم صحیح میں مدد گار ہو اس کے بغیر کتابیں پڑھنی شروع کیں اور انہیں ایسے با صلاحیت اساتذہ بھی میسر نہ آسکے جو اس نئے مطالعہ میں ان کی رہنمائی کر سکیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کتابیں پڑھ کر ان کے سامنے اسلام کا ایک محدود گوشہ آیا۔ جس سے ان کے سامنے اس کا جامع اور مکمل تعارف نہ ہو سکا، کہ وہ اس کے مقاصد و اُصول سمجھ سکے اور ان کی روشنی میں اسلام کے روشن چہرے کا مشاہدہ کر سکے۔ بلکہ ان اندھوں کی طرح یہ نوجوان مسلم نسل بھی ہو گئی جن کے ہاتھ کسی ہاتھی کے جسم پر پڑے اور جس کا ہاتھ جہاں پہنچتا اسے ٹٹول کر مکمل ہاتھی اسی حصہ کو سمجھ لیا۔ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا بھی یہی حال نظر آرہا ہے جو مختلف جماعتوں اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو اسلام سے پشت پھیر کر نفسانیت کی سواری پر چڑھ کر مشرق و مغرب میں گھوم رہے ہیں گویا اسلام سے ان کا اتنا ہی رشتہ ہے کہ موروثی طور پر ان کے اسلامی نام رکھ دیے گئے ہیں ، کچھ تھوڑی سی شرم و حیا باقی نہ رہ جاتی تو اسے بھی ختم کر دیتے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو اسلام کے شجر سایہ دار کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ ایسی راہیں اختیار کرتے ہیں جو ان کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتی ہے اور دشمن ان پر غلبہ پا کر بے قابو بنا دیتے ہیں اور انہیں ایسی جگہوں پر لا ڈالتے ہیں جہاں سے واپسی کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور کوئی پودا اُگنے سے پہلے ہی اس کی جڑ کاٹ دیتے ہیں ۔