کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 137
یہ استعمار پسند قوتیں یہ بھی سوچتی تھیں کہ مسلمان نئے تقاضے قبول کر کے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں جس طرح یورپی ممالک میں ہوا۔جنہوں نے تمدن کی نئی راہوں پر اسی وقت قدم رکھا جب مذہبی احکام سے بغاوت و سرکشی کی اور کلیسا کی پابندیوں سے مکمل طور پر آزاد ہو گئے۔ ان کے خیال کے مطابق ہر مذہب متوقع ترقی و خوش حالی کی راہ میں انسان کے لیے ایک زبردست رکاوٹ ہے: ﴿کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا﴾ (الکھف: ۵) ’’کتنی بڑی بات ان کے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ محض جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔‘‘ ان کا یہ دعویٰ دوسرے تحریف شدہ مذاہب کے لیے توضیح ہو سکتا ہے لیکن اسلام کے لیے ایسا دعویٰ یقینا غلط اور غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ اس کے ساتھ خدا نے عالم بشریت کی سعادت وبرکت وابستہ کر رکھی ہے اور نورِ خداوندی کی روشنی میں وہ اپنے سارے عزائم کی تکمیل کر سکتا ہے۔ اُمت کے اسبابِ وجود اور اسے اسلامی زندگی سے دُور کرنے کے لیے استعمار پسند کفار نے اسلامی تعلیم اور عربی زبان کے لیے ہر طرح کی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے ان طلباء کے ساتھ بے توجہی برتی جانے لگی جو اسلامی تعلیم کی راہ پر چل رہے تھے اور ایسے خیالات پھیلائے گئے جن سے ان کی حیثیت گھٹے اور علوم وفنون بے وقعت ہو جائیں جن سے انہیں معمولی درجہ کے عہدے اور مرتبے بھی حاصل نہ ہو سکیں ۔ ان کے مقابلے میں ایسے طلبہ پر خصوصی توجہ دی گئی اور ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی گئیں جو نئے مدارس سے منسلک ہو کر ان میں تعلیم حاصل کرنے لگے اور ان کے سامنے روشن مستقبل کے دروازے کھول دیے گئے جس کے بعد اُمت کے قائدانہ مناصب و مواقع ان کے لیے وقف ہو گئے۔ اس طرح اسلامی تعلیم اور عربی زبان حاصل کرنے والے طلبہ کا دائرہ تنگ کر دیا گیا اور اس کی طرف رُخ کرنے والے سارے راستے بند کر دیے گئے۔ کچھ طلبہ جو ادھر آنے کی