کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 13
کبھی وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنی اس افسوس ناک قیاس آرائی سے اُصول و عقائد میں متحد مسلمانوں کو محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر نظر انداز کر کے دشمنانِ دین کو ان سے زیادہ اپنا قریبی سمجھنے لگتا ہے۔ ذیل کا مشہور تاریخی واقعہ جس میں اختلاف اپنے اس نقطہ عروج پر ہے کہ سارے اُصول بالائے طاق نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کے مختلف گروہوں نے اپنے ہمہ گیر دین و مذہب کو ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس واقعہ سے ایسی روشنی مل سکتی ہے جس سے ہم عبرت حاصل کریں اور جو ہماری آج کی زندگی کے لیے مفید اور نفع بخش ہو سکتا ہے۔ اپنے چند احباب کے ساتھ واصل بن عطار کا ایک بار کہیں سے گذر ہو رہا تھا جس کا علم خارجیوں کو ہو گیا۔ واصل نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ تمہارا ان کے سامنے ہونا مناسب نہیں ۔ تم لوگ مجھ سے الگ ہو جاؤ ۔ میں ان سے تنہا ملاقات کر لیتا ہوں ۔ ان کی چونکہ جان پر بنی تھی اس لیے سب نے کہا ٹھیک ہے آپ تشریف لے جائیں ۔ اس کے بعد واصل کی خارجیوں سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے باقی ساتھی کہاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کچھ مشرکین کلام اللہ سننے اور اس کے قوانین و احکام جاننے کے لیے تم لوگوں کی پناہ چاہتے ہیں ۔ خارجیوں نے اظہارِ رضامندی کرتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں پناہ دیتے ہیں ۔ پھر واصل نے کہا ہمیں کچھ بتاؤ۔ جس کے بعد وہ تعلیم احکام دینے لگے۔انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہ تعلیم قبول کی ۔ تب انہوں نے خوش ہو کر کہا جاؤ تم ہمارے بھائی ہو گئے۔ واصل نے کہا : بس اتنا ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ﴾ (توبہ:۶ ) ’’اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو کہ وہ کلامِ خداوندی سنے۔ پھر اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دو۔‘‘ اس لیے تم لوگ ہمیں ہمارے ٹھکانے تک پہنچاؤ۔اب وہ سب ایک دوسرے کا منہ