کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 128
باب بن گئی۔[1]
جس میں مہارت کو دوسروں پر تفوق و برتری اور فقہ میں اس کی وسعت نظر کی دلیل سمجھا جانے لگا۔ وقت جتنا گذرتا گیا اور دین کی گرفت کمزور پڑتی گئی یہ معاملہ بڑھتا گیا اور اُمور شریعت میں تساہل بھی بڑھتا رہایہاں تک کہ بعض ایسے مفتی بلا دلیل فتویٰ دینے لگے جس کی صحت کا ان کو بھی یقین نہ ہوتا لیکن وہ یہ سمجھتے کہ اسی میں لوگوں کے لیے نرمی اور تخفیف ہے یا ایسی شدت ہے جس کی وجہ سے حدود سے تجاوز نہیں ہو سکتا۔ گویا بعض کے لیے وہ ایسی رخصت دے دیتے جو عامۂ خلق کے لیے نہیں ہوتی۔[2]
[1] مخارج و حیل فقہ حنفی کے اُصول میں بھی داخل ہے۔ امام محمد بن حسن نے اسی موضوع پر ’’المخارج والحیل‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں اس شکل نے ضرورت سے زیادہ وسعت اختیار کر لی۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : باب الحیل ، اعلام الموقعین اور الحیل فی الشریعۃ الاسلامیہ از محمد بحیری (مقالہ ڈاکٹریٹ)
فقہ کی تقریباً ساری کتابوں میں اس باب یا اس کی کچھ صورتوں کا ذکر مسائل نکاح و طلاق و معاملات وغیرہ میں ملتا ہے۔ اعلام الموقعین از شیخ ابن تیمیہ میں ایک مستقل باب ہے اور جزء سوم و چہارم میں بھی اس کا کچھ ذکر موجود ہے۔ جس میں حیلوں کی حقیقت، اس کی قسمیں ، ہر ایک کا حکم اور پھر بہت ساری مثالیں دی گئی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ؟: کوئی قاتل اپنے اوپر سے قصاص ساقط کرنا چاہے او راس کے لیے یہ صورت اختیار کرے کہ جسے قتل کرنا ہو اس کے جسم میں زخم لگا کر کوئی زہر آلود دوا اس میں ڈال دے یا اور کسی طرح سے اس کو زہریلا زخم لگا دے تو اربابِ حٍیل کہتے ہیں کہ اس پر قصاص واجب نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ اسے قاتل نہیں مانا جائے گا … کوئی شخص اپنے مرضِ موت میں بیوی کو محرومِ وراثت رکھنا چاہے اور اسی عالم میں اگر اسے طلاق دے دے گا تو قاضی اسے حصہ وراثت دلائے گا کیونکہ مرض موت کی طلاق معتبر نہیں ۔ لیکن اربابِ حیل کہتے ہیں کہ بجائے طلاق دینے کے اپنے دل میں یہ سمجھ لے کہ بیوی کوتین طلاق دی تھی … اسی طرح بعض مال دار زکوٰۃ نہ دینے کے لیے اپنا مال وقتی طور پر کسی کو دے دیتے ہیں یا سال پورا ہونے سے پہلے اسے بیچ دیتے ہیں یا اپنی زکوٰۃ کسی تھیلی یا برتن میں رکھ کر اسے فقیر و محتاج کو دیتے ہیں گویا انہیں زکوٰۃ ادا کر دی اور پھر اسے واپس لے لیتے ہیں ۔ یہ بھی صورتیں غلط اور باطل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو علیم و خبیر ہے اور وہ دل و گناہ سے سارے پوشیدہ رازوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔
[2] مناہج الاجتہاد فی الاسلام از سلام مدکورر ۴۵۰۔۴۵۱۔ اُصول الاحکام از حمد کبیسی : ۳۹۰۔