کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 126
حکمرانوں کے سامنے سر نگوں ہو کر ذلت طلب سے وہ نہ بچ سکے۔ پہلے یہی فقہاء مطلوب تھے اور اب طالب ہو گئے۔ سلاطین سے دُور رہ کر باعزت تھے اور اب خود تقرب حاصل کر کے ذلت برداشت کرنے لگے۔ سوائے ان علمائے کرام کے جنہیں اللہ تعالیٰ ہر دور میں توفیق خیر مرحمت فرماتا ہے۔ اس زمانے میں علم فتویٰ پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ کیونکہ اسلامی بلاد و امصار میں اس کی شدید ضرورت تھی۔
اس کے بعد ایسے اُمراء و رؤسا پیدا ہوئے جو اُصولی عقائد کے مباحثوں اور علم کلام[1] کے مناظروں سے دلچسپی لینے لگے۔ اس لیے اہل علم بھی علم کلام ہی میں مصروف رہنے لگے۔ کتابیں تصنیف کی جانے لگیں ۔ مناظروں اور مباحثو ں کے فنون اور طریقے مرتب ہونے لگے تاکہ اسلام و سنت کا دفاع اور بدعات کا استیصال کیا جا سکے۔ اس سے پہلے بھی فتاویٰ سے دلچسپی اسی غرض سے وابستہ تھی تاکہ مسلمان احکام و مسائل کے پابند رہیں اور اس طرح ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی ہوتی رہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ معمولی صلاحیت کے لوگ بھی کلامی مسائل میں غورو خوض کرنے لگے اور مناظرہ کا دروازہ کھل گیا جس سے تعصب و تشدد پیدا ہوا اور خوں ریز و تباہ کن جنگ و جدال کے مناظر سامنے آئے۔ یہ دیکھ کر لوگ فقہی مناظروں کی طرف مائل ہوئے اور مسلک امام ابو حنیفہ اور امام شافعی میں بیانِ اولیٰ پر زیادہ توجہ رہی۔ کلام اور دوسرے مسائل چھوڑ کر لوگ خصوصیت کے ساتھ احناف و شوافع کے اختلافی مسائل پر ٹوٹ پڑے۔ جب کہ مالک، سفیان اور احمد وغیرہم کے اختلافی مسائل میں کوئی سر گرمی نہ دکھائی۔[2] اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ سب کا مقصد یہی ہوتا کہ اس کے ذریعہ دقائقِ شریعت کا استنباط ،
[1] علم کلام … علم عقیدہ و توحید ہے اسے علم کلام اس لیے کہتے ہیں کہ ایسے جدلی مباحث ہوتے ہیں جن میں علماء مسائل عقیدہ پر بحث کر کے مخالفین کے شبہات کا ازالہ کرتے ہیں ۔
[2] امام غزالی کا خیال ہے کہ مقلد مجتہد پانچ ہیں جن میں سفیان ثوری پانچویں ہیں ۔ احیاء علوم الدین : ۱؍۴۱۔ الباب الرابع فی سبب اقبال الخلق علی علم الخلاف۔