کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 125
مسالکِ مشہورہ کی طرف منسوب ہوتے۔ مثلاً نسائی یا بیہقی یا خطابی شافعی تھے ۔ اس دور میں قاضی مجتہد ہوا کرتے تھے اور فقیہ بھی وہی کہلاتے تھے جو مجتہد ہوں ۔ چوتھی صدی ہجری کے بعد کی حالت: چوتھی صدی ہجری کے بدلے ہوئے حالات کا ذکر کرتے ہوئے حجۃ الاسلام غزالی (م۵۰۵ھ) فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائِ راشدین خلافت کے وارث ہوئے جو در پیش مسائل میں خود فتویٰ دیا کرتے تھے اور احکام و معاملات میں تفقہ کے حامل خدا شناس ائمہ کرام تھے۔ دوسرے فقہاء سے صرف انہیں معاملات میں مدد لیتے جہاں مشورہ ضروری ہوتا۔ اس لیے علماء دین خالص علم آخرت میں لگ گئے۔ دنیاوی اُمور و معاملات اور فتاویٰ ایک دوسرے پر ٹالنے لگے اور اللہ کی یاد میں محو ہو گئے۔ جیسا کہ ان کے حالات میں یہ چیزیں منقول ہیں ۔ ان خلفاء کے بعد جب خلافت غیر مستحق لوگوں تک پہنچی جو خود فتاویٰ و احکام کے علم سے گہرا ربط نہیں رکھتے تھے۔ انہیں فقہاء کی مدد لینی پڑی اور ان کی رفاقت حاصل کرنی پڑی تاکہ اُمورِ مملکت میں احکام جاری کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتے رہیں ۔ تابعی علماء جو باقی رہ گئے تھے وہ پہلے طرز او ر طریقے پر قائم رہ کر دین کی طہارت و پاکیزگی کے ساتھ علماء سلف کی راہ پر گامزن تھے۔ لوگ انہیں (عہدہ و منصب وغیرہ پیش کرنے کے لیے) ڈھونڈتے تو وہ ان چیزوں سے دُور رہ کرراہِ فرار اختیار کرتے۔ اس لیے خلفاء انہیں عہد ہ قضاء و امارت کے لیے ڈھونڈ نے پر مجبور تھے۔ ا س دور کے لوگوں نے دیکھاکہ کس طرح خلفاء و امراء علماء دین کی عزت و تکریم کر رہے ہیں اور ان کی اعراض و بے توجہی کے باجوود ان کی نگاہِ التفات کے وہ کتنے منتظر ہیں تو ان حکمرانوں کی طرف سے یہی عزت اور جاہ و حشمت حاصل کرنے کی خاطر طلب علم پر ٹوٹ پڑے اور افتاء سیکھ کر ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر کے ان کے صلے اور مناصب حکومت کے طالب بنے۔ جن میں سے کچھ محروم رہے اور کچھ کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن پھر بھی