کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 12
ہو۔ کیونکہ انسانی ذہن اور اس کے اعمال کی الگ الگ مہارتیں ہوا کرتی ہیں اور صلاحیتوں کا فرق اورتفاوت ضروری بھی ہے۔ حکمت خداوندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تخلیقی یا اکتسابی انفرادی خصوصیتیں رکھنے کے باوجود انسان اور مسائل زندگی میں مناسب حد تک یکسانیت اور ہم آہنگی ہو۔ اسی لیے لوگ باہم مختلف نظر آتے ہیں اور ہر انسان اپنی حاصل شدہ تخلیقی صلاحیتوں کی راہ پر گامزن ہے۔ خود مسلمانوں کے اندر مختلف درجات ہیں ۔ کوئی نیکیوں اور بھلائیوں کے طلب میں سر گرداں ہے تو کوئی اعتدال کی راہ پر چل رہا ہے اور کوئی اپنی بد اعمالی سے اپنے اوپر ظلم کر رہا ہے: ﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo﴾ (ہود: ۱۱۸) ’’اگر تمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی اُمت بنا دیتا اور وہ تو ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔‘‘ مسلمانوں کے عہد زوال و انحطاط میں نقطہ نظر کا اختلاف ، شادابی فکر و رائے ، متعدد رجحانات سے با خبری ، معاملات کے سارے گوشوں اور پہلوؤں پر دقت نظر اور تبادلہ خیالات میں سنجیدگی و متانت کا صحت مند کردار اپنانے کی بجائے داخلی و باہمی انتشار و خلفشار اور جنگ و جدال کا ذریعہ بن گیا۔ اختلافات اس حد تک بڑہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو گئے اور ماضی و حال کی اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ مخالف کو زیر کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لیے دشمنانِ اسلام و معاندین مذہب سے مدد حاصل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کیا گیا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاملات کے اندر انسان معتدل اور جامع نظر نہیں رکھ پاتا اور اس کے سارے پہلوؤں تک اس کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ کسی ایک جزیئہ کے پیچہے پڑ کر اسے ہی بڑی چیز سمجھ بیٹھتابیٹھتا ہے۔ انہماک اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اسے دوسری چیز اس کے برابر نظر نہیں آتی، اور نہ اختلاف رائے رکھنے والے شخص کو برداشت کر پاتا ہے۔ کبھی