کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 118
مودت تھی اور مراسلت بھی۔ وہ امام ابو حنیفہ کی تائید و توثیق کرتے اور ان سے حدیث بیان کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ اور آپ کو جب امام ابو حنیفہ کے انتقال کی خبر پہنچی تو فرمایا: آپ کے ساتھ ہی فقہ کوفہ بھی رخصت ہو گئی۔ انہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے نوازے۔[1] ایک شخص نے سیّدنا یحییٰ بن سعید قطان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: بخدا! ان کی اچھی بات ہم لے لیتے ہیں ۔ اس طرح اختلاف آراء کے باوجود ایک دوسرے کی اچھی باتیں قبول کر لیتے ان کی فضیلت کا ذکر کرتے اور ان کی اچھی باتوں کا انہیں کی طرح انتساب کرتے۔ امام ابو حنیفہ کی تعریف میں سیّدنا عبداللہ بن مبارک کی بہت سی روایتیں ہیں ۔ وہ آپ کی ہر خیر اور خوبی کا ذکر کرتے، تعریفیں کرتے، ان کی باتیں قبول کرتے، اور اپنی مسجد میں آپ کے خلاف کوئی بات نہ کرنے دیتے … ایک روز ایک شریک محفل شخص نے آپ کی طرفکچھ اشارہ کرنا چاہا تو انہوں نے فرمایا: خاموش رہو! اگر تم ابو حنیفہ کو دیکھو تو عقل و نجابت کو دیکھو گے۔ امام شافعی سے منقول ہے ،انہوں نے فرمایا: مالک سے ایک روز عثمان بتی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ وہ ایک معتدل آدمی تھے۔ پھر ابن ابی شبرمہ کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ معتدل شخص تھے۔ اس کے بعد پوچھا گیا کہ ابو حنیفہ ؟ تو فرمایا کہ اگر وہ (مسجد کے) ان ستونوں کے بارے میں تم سے قیاس کی باتیں کرتے ہوئے کہیں کہ یہ لکڑی ہے تو تم سمجھو گے کہ لکڑی ہی ہے۔[2] اس سے فکر و قیاس میں آپ کی مہارت کی طرف اشارہ ہے … امام شافعی سے مروی یہ مقولہ تو بہت مشہور ہے … فقہ میں لوگ ابو حنیفہ کے محتاج ہیں ۔ [3] ان حضرات کی مجالس میں اچھی ہی باتیں ہوا کرتی تھیں اور اگر کوئی شخص اس اُمت کے
[1] الانتقاء: ۱۲۶۔ [2] الانتقاء: ۱۴۷۔ [3] الانتقاء: ۱۳۶۔