کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 111
’’تابعی علماء جو باقی رہ گئے تھے وہ پہلی طرز اور طریقے پر قائم رہ کر دین کی طہارت و پاکیزگی کے ساتھ علماء سلف کی راہ پر گامزن تھے۔ لوگ انہیں (عہدہ و منصب وغیرہ کے لیے) ڈھونڈتے تو وہ ساری چیزوں سے دُور رہ کر ان سے راہِ فرار اختیار کرتے۔‘‘ خلفاء انہیں عہدہ قضا و امارت کے لیے ڈھونڈتے تھے۔ لیکن اس مبارک جماعت کی جگہ دین کے ذریعہ دنیا کے طلب گار آگئے اور اچھوں کی جگہ بُروں نے لے لی۔ اس سلسلے میں بھی امام غزالی کہتے ہیں : ’’ اس زمانہ کے لوگو ں نے دیکھاکہ کس طرح خلفاء و امراء علماء دین کی عزت و تکریم کررہے ہیں اور ان کے اعراض و بے توجہی کے باوجودان کی نگاہ التفات کے کتنے منتظر ہیں تو وہ ان والیوں اور حکمرانوں کی طرف سے یہی عزت اور جاہ و حشمت پانے کی خاطر طلب علم پر ٹوٹ پڑے۔ افتاء سیکھ کر ان کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر کے ان سے صلے اور مناصب حکومت کے طالب بنے۔ جن میں سے کچھ کامیاب بھی ہوئے لیکن حکمرانوں کے سامنے سر نگوں ہونے اور طلب کی ذلت سے وہ نہ بچ سکے۔ پہلے یہی فقہاء مطلوب تھے اور اب طالب ہو گئے۔ سلاطین سے دُور رہ کر باعزت تھے اور اب خود تقرب حاصل کر کے ذلت برداشت کر نے لگے۔ سوائے ان علماء دین کے جنہیں اللہ تعالیٰ ہر دور میں توفیق مرحمت فرماتا ہے۔‘‘ [1] امام غزالی نے علماء کی اس وقت کی تصویر کشی کی ہے جب دنیا طلبی ان کا مقصد اور دین حکمرانوں کے آستانوں کا ایک راستہ بن گیا۔ اور ان کی توجہ و عنایت حاصل کرنے کے لیے علماء کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں نے علم کی طلب و تٔحصیل شروع کرد ی۔ امام مالک فرماتے ہیں :
[1] احیاء علوم الدین : ۱؍۴۱۔ والباب الرابع فی سبب اقبال الخلق علی علم الخلاف۔