کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 11
بَغْیًا بَیْنَہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۹) ’’اور اہل کتاب اس وقت پھوٹ میں پڑے جب ان کے پاس علم آگیا جلن اور سرکشی کی وجہ سے۔‘‘ ہمیں اپنے گریبان میں منہ ڈال کر خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ: کیا ہم کتاب مقدس کی بجائے اہل کتاب کی بیماریوں کے وارث ہو گئے؟ اور کیا علم و معرفت کے اُصول اور تقاضوں کو چھوڑ کر بغاوت و سرکشی کی میراث ہم نے پائی ہے؟ اختلاف و فساد انگیزی اور دین میں تفرقہ اندازی ہی اہل کتاب کا ایسا مرض نظر آتا ہے جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ ان کے دین مٹنے لگے اور ان کے واقعات و حادثات وارثین کتاب و نبوت کے لیے سامانِ عبرت و موعظت بنتے گئے۔ مسلمانانِ عالم کے لیے تونسخ و تبدیلی ممکن نہیں کیونکہ وہ آخری رسول کے وارث، ان کے پیغام کے حامل اور اس کے داعی ہیں ۔ اسی لیے یہ مرض ان کا کام تمام نہ کر سکے گا۔ ہاں اس کا وجود ان میں باقی رہ کر انہیں دائمی ضعف و کمزوری میں مبتلا رکھے گا یا ان کا مناسب علاج کیا جائے تو وہ شفا یاب اور صحت مند ہو کر اُٹھ کھڑے ہوں اور اندرونی نقاہت سے انہیں نجات ملے۔ جو نجات و امان کہ صرف اُمت محمدیہ ہی کی خصوصیت ہے۔ عالم اسلام آج جن تہذیبی مسائل ، مسلم فکری ڈھانچے ، اخلاقی بحران اور اس کے خطرات سے دو چار ہے اس سے اسی صورت میں چھٹکارا پایا جا سکتا ہے کہ پہلے جیسا اخلاق و کردار اس میں دوبارہ پیدا کیا جائے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کا مناسب رُخ متعین کیا جائے اور فکری بحران کی بنیادیں تلاش کر کے ان کی مکمل اصلاح کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہماری ہر کوشش رائیگاں اور بے کار جائے گی۔ بلاشبہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اُمور و معاملات میں رائے اور نقطہ نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے جس کا انفرادی خصوصیتوں سے بڑی حد تک تعلق ہے اور کسی ایسی اجتماعی زندگی کی تشکیل ناممکن ہے جو ایک جیسی صلاحیت و لیاقت اور یکساں انداز رکھنے والے افراد پر مشتمل