کتاب: اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب - صفحہ 107
کے یہاں وضو ضروری تھا بعض وضو نہیں کرتے تھے۔ عورت کو صرف چھونا کسی کے نزدیک ناقض وضو تھا، کسی کے یہاں نہیں تھا۔ اونٹ کا گوشت یا کوئی ایسی چیز جسے براہِ راست آگ نے چھوا ہو اس کے کھانے سے کسی کے یہاں وضو تھا اور کسی کے یہاں اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ ان میں سے کوئی چیز ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے رکاوٹ نہ بن سکی۔ جیسے امام ابو حنیفہ ، ان کے اصحاب ، امام شافعی اور دوسرے ائمہ ،مالکی و غیر مالکی ائمہ مدینہ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ آہستہ یا زور سے بسم اللہ پڑھنے کا التزام نہیں کرتے تھے۔ رشید جس نے پچھنا لگوا رکھا تھا ایک روز امامت کی۔ امام ابو یوسف نے بھی اس کے پیچھے نماز پڑھی اور اس کا اعادہ نہیں کیا جب کہ ان کے نزدیک پچھنا لگوانا ناقض وضو ہے۔ امام احمد بن حنبل کے یہاں نکسیر پھوٹنے اور حجامت بنوانے سے وضو ضروری ہو جاتا ہے۔ ان سے ایک بارپوچھا گیا کہ امام کے بدن سے خون نکلا اور اس نے وضو نہیں کیا۔ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ آپ نے جواب دیا: امام مالک اور سعید بن مسیب کے پیچھے میں کیسے نہ نماز پڑھوں ؟ [1] امام شافعی نے ایک بار نمازِ فجر امام ابو حنیفہ کے مقبرہ کے پاس ادا کی اور دعائے قنوت نہ پڑھی جب کہ ان کے نزدیک قنوت سنت مؤکدہ ہے۔ جب اس سلسلے میں آپ سے پوچھا گیا تو جواب دیا ان کی بارگاہ میں ہوں کیسے ان کی مخالفت کر سکتا ہوں ؟ اور یہ بھی فرمایا: کبھی ہم اہل عراق کا مسلک اختیار کر لیتے ہیں ۔ [2] ائمہ میں امام مالک اہل مدینہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں سب سے زیادہ ثقہ اور صحیح الاسناد سمجھے جاتے تھے۔ سیّدنا عمر کے فیصلوں اور عبداللہ بن عمر و عائشہ صدیقہ و فقہاء سبعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کے سب سے بڑے عالم بھی تھے۔ آپ کے ذریعہ اور آپ ہی جیسے دوسرے ائمہ سے علم روایت و فتویٰ کی بنیاد مضبوط ہوئی۔ آپ نے حدیث و افتاء
[1] اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام مالک اور سعید بن مسیب کے نزدیک خون نکلنا ناقض وضو نہیں تھا۔ [2] حجۃ اللہ البالغہ : ۳۳۵۔