کتاب: اسلام کے مجرم کون؟ - صفحہ 9
پیش لفظ بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم حق وباطل کی کشمکش ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ان کا باہمی ٹکراؤ ہر دور میں ہوتا رہے گا۔اس ٹکراؤ کے بعد ہی واضح ہوتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کسے کہا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر نبی کے دور میں اس کا مقابلہ یا مخالفت کرنے والا کوئی نہ کوئی فرد یا افراد ہوتے تھے مگر آخر کار فتح حق کی ہوتی ہے اور شکست باطل کا مقدر ٹھہرتی ہے۔اس لئے کہ اللہ کا قانون ہے کہ: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ‘‘(سورہ الانبیاء،آیت۱۸) ’’حق کو باطل سے ٹکراتے ہیں تو وہ(حق)باطل کاسر کچل دیتا ہے پس باطل مٹنے والا ہے جو کچھ تم بیان کرتے ہو وہ تمہارے لئے تباہی ہے ‘‘ آیت میں ’’نقذف ‘‘ مضارع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہے کہ یہ ٹکراؤ جاری ہے اور جاری رہے گا۔انبیاء کے مخالفین ہمیشہ عذاب الٰہی کا شکار ہوتے تھے اور انبیاء کو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرتا تھا۔سلسلہ انبیاء منقطع ہونے کے بعد یہ معرکہ اب علمائے حق اور علمبرداران باطل کے درمیان جاری ہے حق تو ہمیشہ سے ایک ہی طرح کا رہا ہے یعنی اللہ کی طرف سے آنے والی وحی کی صورت میں جواب ہمارے پاس قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں موجود ہے جبکہ باطل نے ہر دور میں شکلیں وصورتیں تبدیل کی ہی گر باطل جس شکل میں سامنے آیا حاملین حق نے اس کا ہر میدان میں مقابلہ کیا اسلام کے خلاف سازشوں کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب اس میں فرقے بننے شروع ہوئے تھے۔جو لوگ اسلام اورمسلمانوں کامقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوں نے اس کے خلاف خفیہ سازشیں کیں یا بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھے رکھا مگر باطن سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنی شروع کیں۔سب سے پہلے اس دین کو علوی،عباسی،فاطمی،رافضی(موجودہ شیعہ)،خوارج وغیرہم مذاہب وسیاسی گروہو یں تقسیم کیا گیا اس کے بعد حنفی،شافعی،حنبلی،مالکی بنے،اور تصوف کے