کتاب: اسلام کے مجرم کون؟ - صفحہ 51
ازالہ:۔ ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کے ترجمہ میں بہت زیادہ علمی خیانت کی ہے۔حدیث کے الفاظ ’’بعض القوم ‘‘(کچھ لوگ)کا ترجمہ ’’کچھ صحابہ ‘‘کیا ہے جس سے ان(ڈاکٹر شبیر)کی حدیث وصحابہ رضی اللہ عنہم دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔مزید براں ’’اس آیت کا یہی مطلب امام ترمذی بیان کرتے ہیں یعنی اس عورت کو تاکنے والے ‘‘یہ عبارت ڈاکٹر شبیر کی وضع کردہ ہے۔یہ ایک جھوٹ ہے جو ڈاکٹر شبیر نے امام ترمذی پر چسپاں کیا ہے یہ قول جامع ترمذی میں کہی نقول نہیں۔ یہ روایت ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ([1])سے منقول ہے جو کہ ثقہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ مرسلروایات بیان کرتے ہیں امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں ’’فی اسنادہ نظر‘‘([2])’’اس کی سند میں کلام ہے‘‘ یہ روایت بھی خود ان کا اپنا قول ہے نہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کاجیسا کہ امام ترمذی نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ: وروی جعفر بن سلیمان ھذا الحدیث عن عمروبن مالک عن أبی الجوز اء نحوہ ولم یذکرفیہ عن ابن عباس وھذا أشبہ أن یکون أصح من حدیث نوح([3]) ’’ جعفر بن سلیمان نے اس حدیث کو عمروبن مالک عن ابی الجوزاء کے طریق سے روایت کیا ہے مگر اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں۔اور جعفر بن سلیمان والی حدیث نوح بن قیس کی روایت سے زیادہ صحیح ہے‘‘ جعفر بن سلیمان والی روایت تفسیر عبدالرزاق می وجود ہے([4])
[1] تقریب التھذیب جلد 1صفحہ 95. [2] تاریخ الکبیر 1/16. [3] جامع ترمذی مع تحفۃ جلد 8صفحہ 528. [4] تفسیر عبدالرزاق جلد 2صفحہ 256 رقم 1445.