کتاب: اسلام کے مجرم کون؟ - صفحہ 25
کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے‘یہاں امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرادآپ کا رستہ،منہج،طریقہ،سنت اور شریعت ہے۔ہر قسم کے ا قوال اور اعمال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال پر پیش کیا جائے گااگر ان می وافقت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور مخالفت ہوئی تو اسے کہنے اور کرنے والے ہی کی طرف لوٹادیا جائے گا۔اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ:’ جس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ جس پر ہمارا حکم موجود نہیں ہو تو وہ مردود ہے‘شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ی اور باطنی مخالفت کرنے والے کو ڈرنا چاہیئے‘‘
شیخ ابن باز مزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اعلموا رحمکم اللّٰه أن من أنکر أن کون حدیث النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قولاًکان أوفعلاًبشرطہ المعروف فی الأصول حجۃ،کفر وخرج عن دائرۃ الأسلام،وحشر مع الیہود والنصاری‘‘
’’جان لو کہ اللہ تم پر رحم کرے کہ جس شخص نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قولی یا فعلی حدیث کا انکار کیا تو وہ کافرہے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور قیامت کے روز اس کو یہودونصاریٰ کے ساتھ اٹھایا جائے گا ‘‘ (مجموع الفتاویٰ ومقالات،جلد۱،صفحہ۲۲۰)