کتاب: اسلام کے مجرم کون؟ - صفحہ 15
جائے گا۔جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ آپ مردوں کوکیسے زندہ کرینگے ؟ جواب دیا جاتا ہے کہ: ﴿قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ﴾ ’’کیا آپ ایمان نہیں لائے‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ﴿قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي﴾ ’’کیوں نہیں بس اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں ‘‘ غور طلب بات ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے تقاضہ کیا کہ مجھے بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا تو جواب میں اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ آپ کے پاس عقل نہیں ہے۔بلکہ فرمایا کہ کیا آپ ایمان نہیں لائے ؟یعنی جب ایمان لے آئے تو پھر عقل کا کیا کام ؟ ایمان لانے کے بعد عقل تو شریعت کے تابع ہو جاتی ہے۔ابراہیم علیہ السلام چونکہ اللہ کے نبی اور برگزیدہ بندے تھے اس لئے جواب میں فرماتے ہیں اے اللہ! ایمان تو ضرور لے آیا لیکن دل کا اطمینا ن چاہتا ہوں۔غورطلب بات ہے اس آیت مبارکہ میں بھی عقل پر وحی کو فوقیت دی گئی ہے یعنی ایمان لانے کے بعد ہمیں اپنی عقل کو وحی کے تابع بنانا ہوگا۔اسی صورت میں ہم ایک اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن وصحیح حدیث پر کلّی طور ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے،تاکہ ہم مکمل وحی(قرآن وصحیح حدیث)کے پابند ہو جائیں۔آمین محمد حسین میمن(خادم حدیث) (تحفظ حدیث فاؤنڈیشن پاکستان)