کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 70
’’ اے ایمان والو ! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کر لو ، پھر ان سے صحبت کرنے سے پہلے ہی انھیں طلاق دے دو تو ان پر تمھاری طرف سے کوئی عدت ضروری نہیں ہے جس کی تم گنتی کرو ۔ لہذا تم انھیں کچھ دے دو اور خوش اسلوبی کے ساتھ انھیں چھوڑ دو ۔ ‘‘ 2. اگر حاملہ عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی عدت وضعِ حمل ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ﴾ [ الطلاق : ۴] ’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جنم دیں ۔ ‘‘ 3. وہ عورت جس کو حیض آ تا ہو اور اس کا خاوند اسے طلاق دے دے تو اس کی عدت تین قُرْء یعنی تین حیض یا تین طہر ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾ [ البقرۃ : ۲۲۸] ’’ اور مطلقہ عورتیں تین حیض گذر جانے تک انتظار کریں ۔ ‘‘ 4. جو عورت عمر رسیدہ ہو اور اس کی ماہواری رک چکی ہو یا وہ کم سن ہو اور ابھی اس کو حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَّالِّٰی۔ٓئْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ وَّالِّٰی۔ٓئْ لَمْ یَحِضْنَ ﴾ [ الطلاق : ۴] ’’ اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ، اگر تم ( ان کی عدت کے بارے میں ) شک میں پڑ جاؤ تو ان کی عدت تین ماہ ہے ۔ اور ان عورتوں کی بھی جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔ ‘‘