کتاب: اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال - صفحہ 41
اس کے اخراجات کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ تو طلاق دینے کا اختیار بھی اسی کو دیا گیا ہے ۔ ویسے بھی مرد عموما دور اندیش ہوتے ہیں اور وہ جذباتی فیصلہ نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرتے ہیں ۔ جبکہ عورتیں عموما جذباتی ہوتی ہیں اور ان میں دور اندیشی بھی کم ہوتی ہے ۔ اس لئے طلاق عورت کی بجائے مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی ہے تاکہ طلاق کے واقعات کم سے کم ہوں ۔ خاوند کو تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے جس کا درست طریقۂ کار اگلی سطور میں آ رہا ہے ۔ وہ خود بھی طلاق دے سکتا ہے اور اگر وہ کسی کو وکیل بنا دے تو اس کا وکیل بھی اس کی جانب سے شریعت میں طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق طلاق دے سکتا ہے ۔ 3. طلاق کون دے سکتاہے ؟ طلاق ہر وہ خاوند دے سکتا ہے جو بالغ ، عاقل اور مختار ہو ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو خاوند نابالغ ، مجنون ، دیوانہ اورپاگل ہو ، اسی طرح جو نشے کی حالت میں ہو ، یا اس قدر غضبناک ہو کہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہو تو اس کی طلاق واقع نہیں ہو تی ۔ اسی طرح وہ خاوند جس سے طلاق زبردستی لی جائے اس کی طلاق بھی معتبرنہیں ہے ۔ 4. طلاق کے الفاظ الفاظ کے لحاظ سے طلاق کی دو قسمیں ہیں : 1. طلاقِ صریح ۔ یعنی ایسے الفاظ جو صرف طلاق کیلئے ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلا میں نے تجھے طلاق دی ، تجھے طلاق ہے ، تو مطلقہ ہے وغیرہ ۔ یہ الفاظ چونکہ اپنے معنی کے لحاظ سے